ہفتہ , 20 اپریل 2024

نیٹو کے 70 سال اور درپیش چیلنجز

تحریر: سید رحیم نعمتی

تقریبا ایک ماہ پہلے فرانس کے صدر ایمونوئل میکرون نے میگزین اکانومیسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی فوجی اتحاد نیٹو دماغی موت کا شکار ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ اور یورپ کے درمیان مشترکہ حکمت عملی نہیں پائی جاتی اور امریکی حکام اپنے یورپی اتحاد ممالک سے منہ پھیر چکے ہیں۔ ان کے یہ بیانات اس قدر سخت تھے کہ فورا جرمنی کی صدر اینگلا مرکل کے ردعمل کا باعث بن گئے۔ انہوں نے فرانسیسی صدر کے بیانات کو "حد سے زیادہ سخت” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایمونوئل میکرون نے بہت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اسی طرح نیٹو کے سیکرٹری جنرل پینس اسٹالن برگ نے بھی فرانسیسی صدر کے بیانات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنا موقف واضح کرنا ہو گا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی ایمونوئل میکرون کا جواب دیتے ہوئے کہا: "میکرون کو چاہئے کہ وہ اپنی دماغی موت پر توجہ دیں۔” نیٹو کی تشکیل کے ستر برس پورے ہونے کے موقع پر فرانسیسی صدر کے اس بیان اور اس کے مقابلے میں سامنے آنے والے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر نیٹو واقعی دماغی موت کا شکار نہیں ہوا تو کم از کم اسے سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ضرور ہے۔

نیٹو کو درپیش اہم ترین چیلنج وہ مسئلہ ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے زیر بحث تھا لیکن امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس پر زیادہ سنجیدگی سے بات چیت شروع ہو چکی ہے۔ یہ اہم مسئلہ نیٹو اتحاد میں شامل اراکین کے ذمے مالی ادائیگیاں ہیں۔ 2017ء میں یہ طے پایا تھا کہ نیٹو کے تمام رکن ممالک اپنی جی ڈی پی کا 2 فیصد حصہ اس اتحاد کیلئے مخصوص کر دیں گے۔ اگرچہ یورپی ممالک نے اقتصادی اصلاحات کی انجام دہی کے ذریعے نیٹو کو یہ رقم ادا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ٹرمپ حکومت نے ہمیشہ اسے ناکافی قرار دیا ہے۔ نوبت یہاں تک بھی پہنچی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو اتحاد سے دستبرداری کی دھمکی دے ڈالی۔ اس وقت امریکہ نے نیٹو کو دی جانے والی مالی مدد کی مقدار کم کر کے یورپی ممالک کو شدید دباو کا شکار کر دیا ہے۔

اخبار یو ایس ٹوڈے نے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی غرض سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برطانیہ دورے سے کچھ دن پہلے نیٹو کے ایک اعلی سطحی عہدیدار کی زبانی یہ خبر دی تھی کہ امریکہ نیٹو کے مالی اخراجات میں اپنا حصہ 22 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد تک لے آئے گا۔ یوں امریکہ اس کے بعد نیٹو کو 150 ارب ڈالر کم ادا کرے گا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یورپی حکام نے 2014ء تک نیٹو کو 400 ارب ڈالر ادا کر کے کچھ حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبات کے مقابلے میں پسپائی اختیار کی ہے۔ لیکن اس مسئلے میں امریکہ اور یورپی ممالک کے درمیان تناو بدستور باقی ہے اور یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون اب بھی اپنے موقف پر قائم نظر آتے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمونوئل میکرون نے شام کے شمالی علاقوں میں ترکی کے فوجی آپریشن اور اس پر امریکہ کی خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کی اصل وجہ بھی ان کی یہ تنقید تھی۔

درحقیقت گذشتہ چند سالوں کے دوران امریکہ نے یکطرفہ فیصلے اور اقدامات انجام دیئے ہیں اور اپنے فیصلوں کو یورپی ممالک پر بھی تحمیل کرتا آیا ہے لیکن اب فرانسیسی صدر کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے امریکہ کے مقابلے میں یورپی حکام کی برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جرمن اخبار جنرل آنسائیگر نے حال ہی میں YouGov نامی تحقیقاتی ادارے کی ایک سروے رپورٹ شائع کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمن شہریوں کی اکثریت نے فرانسیسی صدر کی جانب سے نیٹو اور یورپ کی خودمختاری سے متعلق بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس سروے رپورٹ کے مطابق سروے میں شریک افراد میں سے 55 فیصد کی رائے یہ تھی کہ یورپی ممالک کو امریکہ کے اثرورسوخ سے ہٹ کر فیصلے کرنے چاہئیں جبکہ ان کے مقابلے میں صرف 21 فیصد افراد امریکہ کی جانب سے یورپ کی فوجی حمایت کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے گذشتہ ستر برس کے دوران یورپی ممالک کی سکیورٹی کو یرغمال بنا کر انہیں عالمی سطح پر اپنی پالیسیوں کی اندھی تقلید کرنے پر مجبور کئے رکھا ہے لیکن اب یورپی حکام اس رویے کے خلاف آواز اٹھانا شروع ہو گئے ہیں اور فوجی اور سکیورٹی شعبوں میں خودمختاری کے خواہاں ہیں۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …