بدھ , 24 اپریل 2024

تارکین وطن کو بھارت کی شہریت دینے کا متنازع بل

ایج آر شاہ

بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا میں تارکین وطن کو بھارت کی شہریت دینے کا متنازعہ بل پیش کیا گیا، جہاں اس قانون کے تحت مسلمانوں کے سوا چھ مذاہب کے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں حزب اختلاف کے احتجاج کے باوجود متنازع بل پیش کیا، جس کے حق میں 293 ووٹ آئے جبکہ 82 اراکین اسمبلی نے اسے مسترد کیا۔ اس بل کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتوں کو بھارت کی شہریت دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ امیت شاہ نے لوک سبھا میں یہ بل پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کانگریس پر بھارت کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ بل کیوں ضروری ہے، یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ کانگریس نے ملک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا اور یہ بات تاریخ کا حصہ ہے۔

کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس بل کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا گیا، جس کے سبب بل کو پیش کرنے کا عمل تاخیر کا شکار ہوا۔ انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے نکتے کو زیربحث لاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بل آرٹیکل 14 (قانون سے قبل برابری) کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر ہمارے ملک میں اقلیتوں کو خصوصی مقام کیوں حاصل ہے۔ اس بل کے تحت غیر مسلم تارکین وطن کے لیے بھارتی شہریت کا حصول ممکن ہو جائے گا، تاہم اپوزیشن کا ماننا ہے کہ اس اقدام کے ساتھ آئین کی خلاف ورزی ہوگی، کیونکہ حکومت خود ہی عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر رہی ہے۔

مسلمانوں کو بل میں شامل نہ کرنے پر امیت شاہ کا جواب
امیت شاہ نے مسلمانوں کے سوا تمام چھ اقلیتوں کو شہریت دینے کی تقسیم کو بالکل مناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان مسلم ریاستیں ہیں اور یہاں مسلمانوں سے برا سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔ وزیر داخلہ بھارت نے کہا کہ پڑوسی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی ظلم و ستم نہیں ہوتا ہے، اس لیے اس بل کا فائدہ انہیں نہیں ملے گا، اگر ایسا ہوا تو یہ ملک انہیں بھی اس کا فائدہ دینے پر غور کرے گا۔ وزیر داخلہ نے مزید واضح کیا کہ یہ تاثر دینا بالکل غلط ہے کہ اس بل کے بعد مسلمان تارکین وطن بھارت شہریت حاصل نہیں کرسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی مسلمان نے شہریت کے حصول کے لیے درخواست دی تو ہم کھلے دل سے غور کریں گے، لیکن مسلمان تارکین وطن کو شہریت ملنے کے باوجود بھی دیگر اقلیتوں جیسے حقوق میسر نہیں ہوں گے۔ امیت شاہ نے دعویٰ کیا کہ یہ بل اقلیتوں کے خلاف نہیں ہے، تاہم اپوزیشن نے احتجاج جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسے بل پر ایوان میں بحث ہو ہی نہیں سکتی۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ایسے بل پر بحث کا حق نہیں ہے، یہ ہندوستان کی جمہوری اقدار کی خلاف ورزی ہے، کیا ہماری قوم کی تعمیر مذہب کی بنیاد پر ہوگی؟ یہ آئین کے دیباچے کی بھی خلاف ورزی ہے۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟
شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ مذاہب کے غیر مسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955ء کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے منتخب کیٹیگریز کے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔ اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016ء کے تحت شہریت سے متعلق 1955ء میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014ء سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔ اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971ء میں آسام آئے تھے اور یہ 1985ء کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے، کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …