بدھ , 24 اپریل 2024

قطر کے خلاف سعودی عرب اور عرب امارات کو کیا شکست ہوگئی؟ جانیئے اس رپورٹ میں

سعودی عرب اور قطر کے ایک بار پھر بدلتے تعلقات
2 سال پہلے سعودی عرب نے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کیے اور اتحادیوں کو بھی مقاطعہ پر مجبور کیا۔ اس وقت سعودی عرب اور امارات کے میڈیا نے امیرِ قطر کو محمد مرسی جیسے انجام کی دھمکیاں دیں، دوحہ کو قاہرہ کا رابعہ چوک بنانے کی دھمکیاں دی گئیں جہاں 8 سو سے زائد مصری مظاہرین مارے گئے تھے۔ واشنگٹن میں سعودی عرب کے دوست حلقوں سے قطر کے العدید اڈے سے امریکی فوج واپس بلائے جانے کی دھمکیاں دلوائی گئیں۔

لیکن 2 سال بعد قطر عرب دنیا میں کامیابی کی ایک داستان رقم کر رہا ہے۔ قطر اپنی ضرورت کی خوراک کا بڑا حصہ خود پیدا کر رہا ہے، واشنگٹن میں اس کے دوستوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے۔ اگرچہ اسے اس پر بڑی رقم خرچ کرنا پڑی، العدید بیس پہلے کی نسبت زیادہ بڑا ہے، الجزیرہ پہلے کی طرح کام کر رہا ہے اور حال ہی میں اس نے جمال خاشقجی کی برسی پر خصوصی نشریات بھی کیں۔

سعودی عرب اور عرب امارات کا لہجہ بھی بدل گیا ہے، ان ملکوں نے قطر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے اشارے دینا شروع کردیے ہیں، ان دونوں ممالک کی ٹیموں نے دوحہ میں کھیلے جانے والے گلف کپ کے میچوں میں حصہ لیا، اس کے باوجود کہ قطر نہ ہی الجزیرہ بند کرنے پر تیار ہے اور نہ ہی اخوان المسلمین سے رابطہ توڑنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ سعودی عرب کو مطلوب افراد کی حوالگی کا بھی کوئی اعلان نہیں ہوا۔ قطر کی فوجی اور اقتصادی پالیسیاں بھی سعودی عرب یا گلف کونسل کے مطابق ڈھالنے کا کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا۔ان تمام حالات کی روشنی میں مستقبل میں کیا کچھ ہوتا ہے، اس کے لیے ہم سب کو انتظار کرنا ہوگا۔

جارحانہ سعودی پالیسی بے سود
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اندازہ ہوچکا ہے کہ ان کی جارحانہ خارجہ پالیسی سود مند نہیں رہی، ان کی معاشی پالیسیاں بھی توقعات کے مطابق نتائج نہیں دے رہیں، آرامکو کے حصص فروخت کے لیے پیش کیے گئے لیکن توقع کے مطابق ابتدائی طور پر آرامکو کی مارکیٹ ویلیو 2 ٹریلین ڈالر نہیں لگ سکی۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے آرامکو کے حصص نیویارک یا لندن کی مارکیٹ میں پیش کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن سرمایہ کاروں کی دلچسپی نظر نہ آنے پر ریاض میں شیئرز مارکیٹ کیے گئے اور محمد بن سلمان نے جن سرمایہ کاروں کو گرفتار کرکے ان پر کرپشن کا داغ لگایا تھا اب انہیں ہی یہ شیئرز خریدنے کے لیے کہا جا رہا ہے، کیونکہ سعودی ولی عہد کو رقم کی ضرورت ہے۔

جارحانہ خارجہ پالیسی کے نتائج یہ ہیں کہ اردن، عمان اور عراق دُور جاچکے جبکہ مصر بھی مفت تیل بند ہونے پر پہلے جیسا دوست نہیں رہا، اور دوسری طرف ایران قابو میں نہیں آرہا۔تیل تنصیبات پر حملے ہوئے تو شہزادہ محمد بن سلمان کو شدید دھچکا لگا۔ ولی عہد یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایران یہ جرأت بھی کرسکتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر پریشانی یہ ہوئی کہ امریکا ان حملوں کے بعد حرکت میں نہیں آیا۔ کیونکہ ماضی میں تو امریکا اس سے بہت معمولی واقعات پر بھی جنگ چھیڑ چکا ہے تو ایسے حالات میں سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے؟ یہ سوال ولی عہد کی سمجھ سے باہر تھے۔

حیران و پریشان ولی عہد نے علاقائی لیڈروں کے ساتھ رابطے کیے تو عراقی وزیرِاعظم عادل عبدالمہدی سمیت سب نے انہیں احساس دلایا کہ غلطی ان کی اپنی ہے۔ شہزادے نے ترکی سے رابطہ ہی نہیں کیا کیونکہ اسے ترکی کا جواب پہلے سے ہی معلوم تھا۔ قطر کے ساتھ مصالحت جارحانہ خارجہ پالیسی پر نظرثانی کا حصہ ہے۔

مصر کے بگڑتے حالات
مصر اور سعودی عرب میں مفت تیل بند ہونے سے دُوری آئی ہے اور مصر چاہتا ہے کہ اسے یہی سہولت اب عراق سے حاصل ہوجائے۔ کیونکہ مصر پریشان ہے اور اس کی پریشان کی وجہ اس کے بڑھتے ہوئے قرضے ہیں، جو ایک سال میں 16 ارب ڈالر سے بڑھ کر اب 108 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔ مصر میں معاشی بدانتظامی نے بیڑہ غرق کردیا ہے۔ صدر السیسی کی قیادت میں مصر سرمایہ کاروں کے لیے بلیک ہول بن گیا ہے۔ عوام اس قدر بدحال ہیں کہ ایک جلاوطن مزاحیہ اداکار کے کہنے پر بھی مظاہروں کے لیے نکل آتے ہیں۔

فلسطین پر بڑھتا اسرائیلی جبر
فلسطین میں اسرائیلی جبر مزید بڑھ گیا ہے۔ اسرائیل کا دایاں بازو ایک دوسرے پر برتری کے لیے فلسطینیوں کو دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنا اب اسرائیل میں ایک جائز اور قانونی عمل قرار پایا ہے۔ امریکی صدر کا امن منصوبہ جسے وہ ڈیل آف دی سنچری کہتے ہیں ابھی تک شائع نہیں ہوا لیکن اسرائیلیوں کو علم ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام امریکی پالیسیوں میں شامل نہیں اس لیے وہ مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔

عرب امارات بمقابلہ سعودی
عرب امارات اب اپنے مفادات کو سعودی اتحاد پر ترجیح دے رہا ہے۔ امارات کے قومی سلامتی کے مشیر اور ولی عہد کے چھوٹے بھائی طحنون بن زاید وسط اکتوبر میں تہران کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ دورہ سمندر میں 4 تیل ٹینکروں پر حملوں کے بعد ہوا۔ امریکا نے ان حملوں کے بعد ایران پر انگلی اٹھائی لیکن عرب امارات نے حملوں کے فوری بعد اپنی بحریہ کے افسران کو تہران میں ملاقات کے لیے بھیجا۔ طحنون کا دورہ خفیہ رکھا گیا اور تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

عرب امارات یمن سے فوج واپس بلا چکا ہے اور جنوبی یمن پر اپنے حمایت یافتہ باغیوں کے ذریعے قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ محمد بن سلمان ان حالات میں یمن میں عسکری فتح کی امید چھوڑ کر سمجھوتے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سوڈان بھی عرب امارات کی پالیسی اپناتے ہوئے نصف سے زیادہ فوجی دستے واپس بلا چکا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

روس کے الیکشن میں مداخلت نہ کی جائے: پیوٹن نے امریکا کو خبردار کر دیا

ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ …