بدھ , 24 اپریل 2024

سال 2019ء: مشرق وسطیٰ میں اس سال بھی کوئی بہتری نہیں آئی

آصف شاہد کے کالم سے چند اقتباسات

2018ء ختم ہوا تو ایسے اشارے مل رہے تھے جیسے مشرق وسطیٰ میں جاری جنگیں انجام کی طرف بڑھ رہی ہیں، امریکا شام سے نکل رہا تھا، شام میں نئے آئین کی تیاری اور سیاسی حل پر کام شروع ہوتا نظر آرہا تھا، یمن جنگ پر ثالثی کی بات ہو رہی تھی، لیبیا اور عراق بدامنی سے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔

لیکن ایک سال مزید گزر جانے کے بعد بھی مشرق وسطیٰ کے منظرنامے پر بدستور جنگ، پُرتشدد مظاہرے اور نئی صف بندی چھائی نظر آتی ہے، اور عراق اب مشرق وسطیٰ میں نیا میدانِ جنگ بنتا نظر آ رہا ہے۔

2019ء میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی انجام کو پہنچے یوں شام کے بڑے حصے پر قائم داعش کی خود ساختہ خلافت کا خاتمہ ہوا، ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی وار سعودی سرزمین تک پہنچی، لبنان پُرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، معاشی پابندیوں کے نتیجے میں بدحالی کے شکار ایرانی عوام تیل کی قیمتوں میں اضافے پر جلاؤ گھیراؤ پر اترے، جمال خاشقجی کے قتل پر شدید عالمی ردِعمل کے باوجود سعودی عرب اور امریکا کے پُرجوش تعلقات کو فلوریڈا میں سعودی زیرِ تربیت ہوا باز کی فائرنگ کے اثرات کا سامنا ہے۔

2 سال مسلسل مقاطعہ کے نتیجے میں قطر کو کوئی نقصان نہ پہنچا جس پر عرب امارات اور سعودی عرب دوبارہ تعلقات کو بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسرائیل نے شام میں ایران کے ساتھ پراکسی وار کو عراق کی سرزمین تک بڑھادیا ہے۔ امریکا اور ایران کے درمیان جوہری تنازعے میں اب تک ایران کو عالمی برادری کی حمایت حاصل ہے جو ایران کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں میں ابہام اور غیر یقینی حالات کا نتیجہ ہے۔ عرب امارات اور سوڈان کے فوجی دستوں میں کمی کے بعد سعودی عرب یمن میں جاری لاحاصل جنگ کو ختم کرنے پرمجبور ہوچکا ہے۔

خطے میں امریکا کی غلط پالیسیاں اور مستقبل میں بڑھتی طاقت کا اندیشہ
ایران نے تیل ٹینکروں کے خلاف سمندر میں کارروائیاں کیں، ٹینکر پکڑے گئے جبکہ عملہ بھی گرفتار ہوا۔ سعودی پائپ لائنوں پر ڈرون حملے ہوئے، دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری کو پیداوار روکنا پڑی، عراق میں امریکی تنصیبات پر حملے ہوئے، امریکا کا بلیک ہاک گرایا گیا، ایران نے جوہری معاہدے سے انحراف کی پالیسی اپنائی اور امریکا جواب میں صرف بڑ ہانکتا اور نئی معاشی پابندیوں کا اعلان کرتا رہا۔

امریکا کے اس رویے سے بھی مشرق وسطیٰ میں بے چینی ہے۔ امریکا جو مشرق وسطیٰ اور بالخصوص سعودی عرب کے دفاع کا ذمہ دار تھا ایک طرح سے یوٹرن لے چکا ہے۔ سعودی عرب کی سب سے بڑی ریفائنری جو عالمی ضرورت کا 7 فیصد پورا کرتی ہے، اس پر حملہ عالمی معاشی مفادات پر حملہ سمجھا گیا لیکن صدر ٹرمپ نے اس پر کوئی سخت کارروائی نہ کرکے امریکا کو ناقابلِ اعتماد اتحادی ثابت کردیا۔

جنگ مخالف نعرے پر اقتدار میں آنے والے صدر ٹرمپ دوسری مدت کے لیے چلنے والی انتخابی مہم سے پہلے کسی بھی ایسی مہم جوئی سے گریز کررہے ہیں جو خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

اس نقصان سے بچنے کے لیے امریکا خطے میں فوج کی تعیناتی بڑھا رہا ہے اور اس تاثر سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس نے اتحادیوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔ امریکا مزید 14 ہزار فوجی بھجوانے پر غور کر رہا ہے لیکن اپنے منصوبوں کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ امریکا مئی سے اب تک 14 ہزار فوجی پہلے ہی خطے میں بھجوا چکا ہے جس پر امریکا کے قانون ساز بھی بے چین ہیں اور حکام سے جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ارادے کیا ہیں۔

سعودی عرب اور قطر کے ایک بار پھر بدلتے تعلقات
2 سال پہلے سعودی عرب نے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کیے اور اتحادیوں کو بھی مقاطعہ پر مجبور کیا۔ اس وقت سعودی عرب اور امارات کے میڈیا نے امیرِ قطر کو محمد مرسی جیسے انجام کی دھمکیاں دیں، دوحہ کو قاہرہ کا رابعہ چوک بنانے کی دھمکیاں دی گئیں جہاں 8 سو سے زائد مصری مظاہرین مارے گئے تھے۔ واشنگٹن میں سعودی عرب کے دوست حلقوں سے قطر کے العدید اڈے سے امریکی فوج واپس بلائے جانے کی دھمکیاں دلوائی گئیں۔

لیکن 2 سال بعد قطر عرب دنیا میں کامیابی کی ایک داستان رقم کر رہا ہے۔ قطر اپنی ضرورت کی خوراک کا بڑا حصہ خود پیدا کر رہا ہے، واشنگٹن میں اس کے دوستوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے۔ اگرچہ اسے اس پر بڑی رقم خرچ کرنا پڑی، العدید بیس پہلے کی نسبت زیادہ بڑا ہے، الجزیرہ پہلے کی طرح کام کر رہا ہے اور حال ہی میں اس نے جمال خاشقجی کی برسی پر خصوصی نشریات بھی کیں۔

سعودی عرب اور عرب امارات کا لہجہ بھی بدل گیا ہے، ان ملکوں نے قطر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے اشارے دینا شروع کردیے ہیں، ان دونوں ممالک کی ٹیموں نے دوحہ میں کھیلے جانے والے گلف کپ کے میچوں میں حصہ لیا، اس کے باوجود کہ قطر نہ ہی الجزیرہ بند کرنے پر تیار ہے اور نہ ہی اخوان المسلمین سے رابطہ توڑنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ سعودی عرب کو مطلوب افراد کی حوالگی کا بھی کوئی اعلان نہیں ہوا۔ قطر کی فوجی اور اقتصادی پالیسیاں بھی سعودی عرب یا گلف کونسل کے مطابق ڈھالنے کا کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا۔

ان تمام حالات کی روشنی میں مستقبل میں کیا کچھ ہوتا ہے، اس کے لیے ہم سب کو انتظار کرنا ہوگا۔

جارحانہ سعودی پالیسی بے سود
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اندازہ ہوچکا ہے کہ ان کی جارحانہ خارجہ پالیسی سود مند نہیں رہی، ان کی معاشی پالیسیاں بھی توقعات کے مطابق نتائج نہیں دے رہیں، آرامکو کے حصص فروخت کے لیے پیش کیے گئے لیکن توقع کے مطابق ابتدائی طور پر آرامکو کی مارکیٹ ویلیو 2 ٹریلین ڈالر نہیں لگ سکی۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے آرامکو کے حصص نیویارک یا لندن کی مارکیٹ میں پیش کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن سرمایہ کاروں کی دلچسپی نظر نہ آنے پر ریاض میں شیئرز مارکیٹ کیے گئے اور محمد بن سلمان نے جن سرمایہ کاروں کو گرفتار کرکے ان پر کرپشن کا داغ لگایا تھا اب انہیں ہی یہ شیئرز خریدنے کے لیے کہا جا رہا ہے، کیونکہ سعودی ولی عہد کو رقم کی ضرورت ہے۔

جارحانہ خارجہ پالیسی کے نتائج یہ ہیں کہ اردن، عمان اور عراق دُور جاچکے جبکہ مصر بھی مفت تیل بند ہونے پر پہلے جیسا دوست نہیں رہا، اور دوسری طرف ایران قابو میں نہیں آرہا۔

تیل تنصیبات پر حملے ہوئے تو شہزادہ محمد بن سلمان کو شدید دھچکا لگا۔ ولی عہد یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایران یہ جرأت بھی کرسکتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر پریشانی یہ ہوئی کہ امریکا ان حملوں کے بعد حرکت میں نہیں آیا۔ کیونکہ ماضی میں تو امریکا اس سے بہت معمولی واقعات پر بھی جنگ چھیڑ چکا ہے تو ایسے حالات میں سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے؟ یہ سوال ولی عہد کی سمجھ سے باہر تھے۔

حیران و پریشان ولی عہد نے علاقائی لیڈروں کے ساتھ رابطے کیے تو عراقی وزیرِاعظم عادل عبدالمہدی سمیت سب نے انہیں احساس دلایا کہ غلطی ان کی اپنی ہے۔ شہزادے نے ترکی سے رابطہ ہی نہیں کیا کیونکہ اسے ترکی کا جواب پہلے سے ہی معلوم تھا۔ قطر کے ساتھ مصالحت جارحانہ خارجہ پالیسی پر نظرثانی کا حصہ ہے۔

مصر کے بگڑتے حالات
مصر اور سعودی عرب میں مفت تیل بند ہونے سے دُوری آئی ہے اور مصر چاہتا ہے کہ اسے یہی سہولت اب عراق سے حاصل ہوجائے۔ کیونکہ مصر پریشان ہے اور اس کی پریشان کی وجہ اس کے بڑھتے ہوئے قرضے ہیں، جو ایک سال میں 16 ارب ڈالر سے بڑھ کر اب 108 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔ مصر میں معاشی بدانتظامی نے بیڑہ غرق کردیا ہے۔ صدر السیسی کی قیادت میں مصر سرمایہ کاروں کے لیے بلیک ہول بن گیا ہے۔ عوام اس قدر بدحال ہیں کہ ایک جلاوطن مزاحیہ اداکار کے کہنے پر بھی مظاہروں کے لیے نکل آتے ہیں۔

فلسطین پر بڑھتا اسرائیلی جبر
فلسطین میں اسرائیلی جبر مزید بڑھ گیا ہے۔ اسرائیل کا دایاں بازو ایک دوسرے پر برتری کے لیے فلسطینیوں کو دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنا اب اسرائیل میں ایک جائز اور قانونی عمل قرار پایا ہے۔ امریکی صدر کا امن منصوبہ جسے وہ ڈیل آف دی سنچری کہتے ہیں ابھی تک شائع نہیں ہوا لیکن اسرائیلیوں کو علم ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام امریکی پالیسیوں میں شامل نہیں اس لیے وہ مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …