ہفتہ , 20 اپریل 2024

امریکہ کا زوال اور اس کے عوامل (2)

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
امریکی بجٹ میں عدم توازن اور اس کے بعد نجکاری کا اقدام بالخصوص رینالڈ ریگن کے دور حکومت میں نجکاری نے نچلے طبقے کو نقصان پہنچا اور وال اسٹریٹ کا ملک میں اثر و روسخ بڑھ گیا۔ امریکہ کا حکومتی نظام غربت کے خاتمے، جرائم پر قابو پانے اور صنعتی شعبے کے غلبہ کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا، اس کا نتیجہ ایک بڑے اقتصادی بحران کی صورت میں 2008ء میں سامنے آیا۔ امریکہ کے کئی بینک اور اقتصادی انسٹی ٹیوٹ ایک کے بعد ایک دیوالیہ ہو کر بند ہونے لگے، جس سے امریکی عوام کا اربو ڈالر کا سرمایہ ڈوب گیا۔ جارج ڈبلیو بش نے اس اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے اقتصادی شعبے میں قدم رکھا، لیکن ان کو بھی شدید خسارے کا بحٹ پیش کرنا پڑا اور امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو ایک اور جھٹکا برداشت کرنا پڑا۔

امریکہ کی زبوں حال اقتصادی صورتحال سے پالولسٹوں نے فائدہ اٹھایا اور موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کو 2016ء میں ایک کامیاب تاجر کے طور پر وائٹ ہائوس پہنچایا، لیکن ایک کامیاب تاجر کے برسراقتدار آنے اور امریکہ کی ماضی کی تبدیلی کی آئیڈیالوجی میں تبدیلی بھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔ نئے امریکی صدر کو بھی اقتصادی چینلنجوں کی وجہ سے مختلف چینلنجز کا سامنا ہے۔ اس وقت امریکہ صدر ڈونالڈ ٹرامپ کی عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہے اور یوکرین گیٹ جیسا اسکینڈل ان کے لیے مصیبت بن چکا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور اسمالی سی ٹی وی کے مشترکہ سروے کے مطابق ڈونالڈ ٹرامپ کی محبوبیت کی سطح ری پبلیکشنز پارٹی میں بہت نیچے آچکی ہے۔ ستمبر 2019ء سے دسمبر 2019ء تک اس میں آٹھ فیصد کمی آئی، امریکی عوام میں سے 49 فیصد ڈونالڈ ٹرامپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور انہیں کنار کرنے کی حمایت کی ہے، جبکہ 47 فیصد اس اقدام کے مخالف ہیں۔ ان اعداد و شمار سے بخوبی محسوس ہوتا ہے کہ امریکی معاشرہ دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔

امریکہ کے زوال پذیر ہونے کی ایک اہم وجہ امریکی معاشرے کا سماجی انحطات اور امریکی عوام کا مختلف طبقات میں تقسیم ہونا بھی ہے۔ امریکہ کو اس وقت مختلف مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ امریکہ جن بحرانوں سے دوچار ہے، اس میں قوم پرستی، رنگ و نسل کی تفریق، تارکین وطن کی زبوں حالی، لاطینی امریکہ کے باشندوں سے متعصبانہ رویہ، آتشی ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال، طبقاتی تقسیم میں اضافہ اور تشدد پسندی میں تیزی سے اضافے کا نام لیا جا سکتا ہے۔ امریکی معاشرہ اس وقت امیر اور غریب جیسی طبقہ بندی میں بری طرح گرفتار ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے وال اسٹریٹ کا منفی کردار نمایاں ہوگیا، اس لیے امریکہ کو ایک فیصد سرمایہ داروں کا ملک کہا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے بقول اس ایک طبقے کے خلاف امریکہ میں وال اسٹریٹ تحریک شروع ہوتی۔

امریکہ میں جرم و جرائم میں اضافہ بھی ایک اور اجتماعی بحران ہے، اس وقت پوری مغربی دنیا کے مقابلے میں امریکہ میں قیدیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں کچھ عرصہ سے مینیجمنٹ کا بحران بھی شدت پکڑ رہا ہے اور عوام کا امریکی انتظامیہ سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ آج امریکہ آزادی، فلاح و بہبود، سہولیات اقتصادی، انسانی عزت و وقار، انسانی حقوق کی رعایت وغیرہ کے عنوانات سے معروف نہیں بلکہ امریکہ کا تعارف کراتے وقت وہاں موجود غربت و افلاس، عدم مساوات، نسل پرستی، جرم و جرائم اور دیگر معاشرتی مشکلات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ امریکہ اس وقت مختلف سماجی طبقہ بندی کا شکار ہے۔ دولت اور سرمائے کی وجہ سے امیر اور غریب طبقے میں شکاف بڑھ رہا ہے۔ نسل پرستی اور رنگ و زیان کی وجہ سے امریکی عوام میں بڑھ رہی ہے۔

موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ نے تو کئی میدانوں میں امریکی عوام کے درمیان طبقہ بندی اور نفرت کی دیواریں مزید بلند کر دی ہیں۔ اعداد و شمار سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں رنگ و نسل کے حوالے سے تعصبات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ تارکین وطن کے مسائل، میڈیکل انشورنس کے مطالبے اور جدید ٹیکسوں کے نظام نے عوام کی زندگی کو نئے نئے چینلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرامپ کے دور میں نسل پرستی کی ایک نئی لہر سامنے آئی ہے۔ ڈونالڈ ٹرامپ نے انتخابی مہم اور اپنے طرز حکمرانی مین نسل پرستی اور رنگ و زبان کے مسئلے کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ امریکی صدر کے اس رویئے پر رنگین فاموں کا احتجاج اور نفرت فطری محسوس ہو رہی ہے۔ امریکہ کے معروف سماجی ماہر ولیم لیئون کے مطابق ڈونالڈ ٹرامپ کے انتخاب کے بعد ایک بار پھر سفید فاموں کی امریکہ پر برتری نمایاں ہوگئی ہے۔ ڈونالڈ ٹرامپ اپنے اقدامات اور بیانات سے سفید فاموں اور دائیں بازو کے انتہاء پسندوں کو وقتاً فوقتاً متحرک کرتے ہیں اور ان کی کھلے عام حوصلہ افزائی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

ٹرامپ کی تقاریر میں تارکین وطن، مہاجرین اور سیاہ فاموں کے خلاف موقف بیان کیا جاتا ہے۔ ٹرامپ نے 2017ء میں ورجینا میں نسل پرستی کی مخالف عورت کے قتل پر جو موقف اپنایا تھا، اس پر ان پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ ٹرامپ کے اس طرح کے اقدامات اس بات کا باعث بنے کہ رنگ و نسل کے تعصیبات کے مختلف افراد پر انتہاء پسندوں نے مسلحانہ حملے کیے، یہاں تک امریکہ کہ سکیورٹی اداروں کو اس حوالے سے باقاعدہ خبردار کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر امریکہ کے داخلی سلامتی کے ایک اعلیٰ افسر کیون ملک آمینا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ سفید فاموں کے غلبے کے تاثر سے اس ملک میں داخلی دہشت گردی جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ امریکہ کو وجود میں آئے تین صدیاں ہوچکی ہیں، لیکن اس ملک میں اب بھی سیاہ فاموں کے خلاف تعصبانہ رویہ رکھا جاتا ہے۔

کچھ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ میں باراک اوبامہ کی صورت میں ایک سیاہ فام امریکی صدر کی وجہ سے یہ نفرتیں اور تعصب ختم ہوگا، لیکن عملی میدان میں ایسا نہ ہوسکا بلکہ اس کے باوجود سیاہ فاموں کی معاشرتی، اقتصادی اور سلامتی کے حوالے سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ سیاہ فاموں کے ساتھ امریکی پولیس کا رویہ اس کی سب سے نمایاں مثالیں ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں 70 فیصد کیسز میں امریکی پولیس سیاہ فاموں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کرتی ہے۔ امریکن پولیس سرخ فاموں اور سیاہ فاموں کے ساتھ قدامت پرستانہ رویہ رکھتی ہے اور ان کو مطلوبہ انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں آئے روز سیاہ فاموں اور سرخ فاموں سے احتجاج کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں انسانی حقوق اور برابری کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں اور امریکہ دوسرے ممالک پر دبائو بڑھانے کے لیے ان پر انسانی حقوق اور عدم مساوات کے الزامات لگاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …