جمعرات , 25 اپریل 2024

مشترکہ اسلامی کرنسی کی ضرورت کیوں ہے؟ (2)

تحریر: ایل اے انجم

انیسویں صدی میں ہی کاغذی کرنسی مستحکم ہونا شروع ہوئی تھی، صنعتی انقلاب کے نتیجے میں عالمی تجارت کے پھیلاؤ کے ساتھ ایک مسئلہ عالمگیر حیثیت کے حامل کرنسی کا سامنا رہا۔ یعنی ایک ایسی کرنسی ہو، جو دنیا بھر میں چل سکے، تاکہ تجارت میں آسانی ہو، مختلف ممالک کے تاجروں کو متبادل کرنسیوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنا نہ پڑے۔ سونے کے سکوں کی جگہ ضمانتی کرنسی نوٹ متعارف ہونے کے بعد متبادل کرنسیوں کے حصول میں مشکل پیش آتی رہی۔ ہر ملک کی اپنی اپنی کرنسی ہے، جو دوسرے ملک میں نہیں چل سکتی، مثال کے طور پر اگر کوئی پاکستانی جرمنی سے چیزیں خرید رہا ہے تو جرمن بیوپاری تو اپنی کرنسی یعنی یورو میں رقم مانگے گا، تاکہ وہ اپنے ملک میں خریداری کرسکے۔ چلیں اگر اس پاکستانی نے یورو یورپ کے سنٹرل بینک سے خرید کر اس جرمن بیوپاری کو رقم ادا کر دی، مگر پھر اس نے ویتنام سے بھی کپڑے خریدنے ہیں۔ اب اسے ویتنام کے سنٹرل بینک سے وہاں کی کرنسی خرید کر ادائیگی کرنی پڑے گی۔ اس طرح تو عالمی تجارت کرنا بہت مشکل ہے کہ سارا وقت یہی مسئلہ رہے گا کہ ادائیگی کیسے ہوگی۔ اسی لیے عالمی تجارت میں لوگ متلاشی ہوتے ہیں کسی ایسی کرنسی میں لین دین کے، جس کی حکومت پر انہیں سب سے زیادہ اعتماد ہو۔ اس کو عام اصطلاح میں ریزرو کرنسی کہا جاتا ہے۔

بریٹن ووڈز معاہدہ اور سکہ رائج الوقت
ڈالر کو عالمی کرنسی کی حیثیت بریٹن ووڈز معاہدے کے بعد مل گئی، بریٹن وڈز کا معاہدہ جولائی 1944ء میں نیو ہیمپشائر امریکا میں 44 ممالک کے درمیان ہونے والا ایسا معاہدہ ہے، جس کا مقصد دنیا کو ایک نیا مالیاتی اور زری نظام دینا اور جنگ زدہ ممالک کی تعمیر و ترقی تھا۔ معاہدے میں شامل ممالک نے ڈالر کو بطور سکہ رائج الوقت قبول کر لیا۔ بعد میں دیگر تمام ممالک کو بھی قبول کرنا پڑا، اسی معاہدہ کے تحت عالمی بنک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا قیام عمل میں آیا۔ جب کوئی ایک ملک کسی دوسرے ملک کی کاغذی کرنسی پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو وہ بڑے پوشیدہ طریقے سے اُس دوسرے ملک کی معیشت، صنعت، تجارت اور دولت پر حاوی ہو جاتا ہے۔ بریٹن ووڈز معاہدے کا اصل مقصد بھی اسی طرح سے دنیا بھر پر امریکی بینکاروں کی حکمرانی قائم کرنا تھا۔ اس معاہدے کے وقت دنیا بھر کے بنکوں میں موجود سونے کے ذخائر کا 75 فیصد امریکا کے پاس تھا، اس وجہ سے امریکی ڈالر کو عالمگیر کرنسی کی حیثیت دی گئی۔

معاہدے کے تحت امریکہ ڈالر کو حکومت کے پاس موجود سونے اور چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپنے کا پابند تھا۔ بریٹن ووڈز ایگریمنٹ کا مقصد ہی ڈالر کو عالمی کرنسی قبول کرواتے ہوئے دنیا کے مالیاتی نظام کا کنٹرول حاصل کرنا تھا، جب یہ مقصد حل ہوگیا تو 1971ء میں صدر نکسن نے معاہدہ توڑ دیا، جس کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک نہیں رہی، یعنی سونے اور ڈالر کے مابین کوئی تعلق نہیں رہا۔ آسٹریلیا کے وزیر محنت Eddie Ward نے بریٹن اووڈز کی سازش کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، وہ سب کچھ آنے والے سالوں میں بالکل سچ ثابت ہوا۔ "مجھے یقین ہے کہ پرائیوٹ عالمی بینکار بریٹن اووڈز معاہدے کے ذریعے پوری دنیا پر اپنی ایسی مکمل اور خوفناک ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں، جس کا ہٹلر نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہوگا۔ یہ وحشیانہ طریقے سے چھوٹے ممالک کو غلام بنا دے گی اور ہر حکومت ان بینکاروں کی دلال بن جائے گی۔ عالمی مالیاتی اداروں کا گٹھ جوڑ بے روزگاری، غلامی، غربت، ذلت اور مالیاتی تباہی میں اضافہ کرے گا۔ اس لیے ہم آزادی پسند آسٹریلویوں کو اس منصوبے کو نامنظور کر دینا چاہیئے۔”

امریکہ کے مشہور ویڈیو سیریز کے میزبان اور مصنف مائیک میلونی کہتے ہیں۔ ”ڈالر کی کل مقدار کا نصف سے زیادہ متحدہ امریکا سے باہر کے ممالک میں ہے۔ جب ہم ڈالر چھاپتے ہیں تو ہم دوسرے ممالک کی قوت خرید چُرا لیتے ہیں، جو متحدہ امریکا کو منتقل ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے اور ہم نے اسے بیجا استعمال کیا ہے۔” عالمی اقتصادی پیداوار میں امریکہ کا حصہ 20 فیصد ہے جبکہ کرنسی ذخائر اور عالمی تجارت کا نصف سے زائد حصہ ڈالر میں ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں جہاں بھی ڈالر استعمال ہو رہے ہیں تو بقول مائیک میلونی حقیقت میں وہ امریکہ کی قوت خرید میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جتنے زیادہ ڈالر دنیا میں گردش کر رہے ہوں گے، اتنا ہی امریکی معیشت کو دوام ملے گی۔ ایک اور مثال یہ ہے کہ ویتنام جنگ کے دوران امریکی معیشت سخت دباو کا شکار تھی اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اپریل 1971ء میں جرمنی نے امریکی دباؤ میں آکر پانچ ارب ڈالر خریدے، تاکہ امریکی ڈالر کو سہارا مل سکے۔ مئی 1971ء میں جرمنی نے بریٹن ووڈ معاہدے سے ناتا توڑ لیا، کیونکہ وہ گرتے ہوئے امریکی ڈالر کی وجہ سے اپنے جرمن مارک کی قیمت مزید نہیں گرانا چاہتا تھا۔

اس کے صرف تین مہینوں بعد جرمنی کی معشیت میں بہتری آگئی اور ڈالر کے مقابلے میں مارک کی قیمت %7.5 بڑھ گئی۔ امریکی ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک نے امریکہ سے سونے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ سویٹزرلینڈ نے جولائی 1971ء میں پانچ کروڑ ڈالر کا 44 ٹن سونا امریکا سے وصول کیا۔ امریکا نے سفارتی دباو ڈال کر دوسرے ممالک کو سونا طلب کرنے سے روکنا چاہا، مگر فرانس نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے 19.1 کروڑ ڈالر امریکا سے 170 ٹن سونے میں تبدیل کروائے۔ اس طرح امریکا اور فرانس کے تعلقات خراب ہوگئے، جو آج تک بہتر نہ ہوسکے۔ آج کے دور میں کوئی بھی ملک امریکہ سے ڈالر کے عوض سونے کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اگر ایسا ہوا بھی تو امریکہ اس ملک کے ڈالر کی شکل میں موجود اثاثوں کو منجمد کرکے سبق سیکھا دیتا ہے۔ کاغذی کرنسی کے برعکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔ اگر کوئی کرنسی سونے سے منسلک ہوگی تو آئی ایم ایف کے لیے اس کی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ڈالر بطور ہتھیار
ایک اہم مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ اگر امریکہ ڈالر کی قدر بڑھائے یا گھٹا دے تو دنیا کے درجنوں ممالک خود بخود دیوالیہ ہو جائیں گے، کیونکہ ان ممالک کے ریزوو ذخائر اور تجارت و قرضوں کا پورا نظام ڈالر کے ساتھ منسلک ہے۔ رواں سال جون میں ڈالر کی 12 روپے 13 پیسے مہنگا ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 1273 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یوں بیٹھے بیٹھے ملک کھربوں روپے کے مزید قرضے چڑھ گئے۔ اسی طرح کا معاشی جھٹکا 1997ء میں ملائیشیاء کو بھی لگا تھا۔ ملائیشیاء کی کرنسی کی قدر کو بھی ایک سازش کے تحت کم کرکے آدھی کی گئی۔ اسی معاشی جھٹکے کے بعد ہی مہاتیر محمد نے سونے کی اسلامی کرنسی متعارف کرنے کی تجویز دی تھی۔ اگست 2018ء میں ترک کرنسی لیرا کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 35 فیصد گر گئی، جس کی وجہ سے ملکی معیشت جمود کا شکار ہوئی۔ یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ترکی پر سٹیل اور ایلومینیم ٹیرف دگنا کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد اچانک ترک کرنسی لیرا کی قدر گرنا شروع ہوئی اور ملک میں افراط زر کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔ اردگان نے اس صورتحال کو ترک معیشت کیخلاف سازش اور ایک منظم آپریشن سے تعبیر کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …