ہفتہ , 20 اپریل 2024

عسکری و سیاسی قیات کا مردہ ضمیر اور نالائق سعودیوں کی فرمانبرداری کرنا پاکستان کو زلیل کرنے کے مترادف ہے؛ علامہ محمد امین شہیدی

اسلام آباد: گزشتہ ہفتے ملیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک سہ روزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں مسلم ممالک کے سربراہان اور عہدیداروں نے بھر پور شرکت کی۔ اس کانفرنس کی منصوبہ بندی کرنے والے ممالک میں ملیشیا، ترکی اور پاکستان شامل تھے لیکن عین وقت پر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سعودی اور اماراتی حکومتوں کے دباؤ کی وجہ سے کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ ان حکومتوں کے مطابق یہ کانفرنس او آئی سی کے مقابلے میں ایک نئی ممکنہ تنظیم کا آغاز ہے جس سے امت مسلمہ انتشار کا شکار ہو جائے گی ۔ دوسری جانب اس کانفرنس کو عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج دی لیکن سعودی اور اماراتی حکومتوں کے کانفرنس کے بائیکاٹ پر شکوک و شبہات نے بھی جنم لیا جن کا جواب امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے ایک تفصیلی بیان میں دیا ہے۔

اس بیان میں انہوں نے کہا: "او آئی سی تما م مسلم ممالک کی مشترکہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کی داغ بیل جب ڈالی گئی تھی تو اس کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی تھی کہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے  مسائل و مشکلات اور معاشرے میں ایک دوسرے کی ترقی کے حوالے سے مل کر کام کریں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم امریکہ کی ایک ایسی puppet ( کٹھ پتلی) تنظیم بن گئی جس کو مسلم امہ کے خلاف استعمال کیا گیا اور اِس کے ذریعے سے خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل کی گئی۔ لہٰذا گزشتہ چار دہائیوں کے اندر چاہے عراق اور ایران کی جنگ ہو، کویت پر صدام حسین کا حملہ ہو، یمن کی جنگ یا شام کے مسائل ہوں، افغانستان یا کشمیر کا مسئلہ ہو، یا پھر نائجیریا کے مسائل ہوں۔ کہیں پر بھی او آئی سی کا ایک پیسے کا مثبت کردار نہ رہا بلکہ او آئی سی نے صرف امریکی استعماری اور مغربی دنیا کے مفادات کا تحفظ کیا۔ حتیٰ کہ کشمیر کے مسئلے پر محمد بن سلمان اور یو اے ای کی وزارت خارجہ کی طرف سے جو پیغام جاری ہوا وہ یہ تھا کہ امت کا کشمیر کے مسئلے سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے اس کو امت کا مسئلہ نہ بنایا جائے یہ علاقائی مسئلہ ہے ہندو جانیں اور وہاں کے مسلمان جانیں۔ ہمارا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ ہے عالم اسلام کے مسائل میں او آئی سی کا کردار! جبکہ دوسری طرف امریکا اور یورپ نے مسلمان ممالک کا جو استحصال جاری رکھا ہوا ہے اس کا نتیجہ ہم عراق کی تباہی اور شام کے تیل پر امریکیوں کے قبضے کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل کے ہر دن بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور کشمیر اور بالعموم انڈیا کی موجودہ صورتحال میں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح انڈیا نے مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی ہے اور ان کے تمام حقوق صلب کیے جارہے ہیں۔ ہم افغانستان کی صورتحال بھی دیکھ سکتے ہیں۔ افغانستان کے اندر افغان عوام کی اُمنگوں کے خلاف کس طرح امریکی اور یورپی اشارے پر یہی او آئی سی کے رکن ممالک افغانیوں کے گرد گھیرا تنگ کرچکے ہیں اور امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے پالیسیز کا حصہ بنتے رہے ہیں ۔ یہی صورتحال ہم ایران کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں کہ یورپ ، امریکا اور اسرائیل کی طر ف سے ایران کے گرد چالیس سالہ اقتصادی ، معاشی، سیاسی، سائنسی مقاطعہ ،ٹیکنالوجی، صنعت، حرفت اور طب کے شعبوں میں استحصال اور محاصرے کا عمل جاری ہے۔ اِس معاشی دہشت گردی میں بھی او آئی سی کا بڑا اہم کر دار ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ او آئی سی ایران کے خلاف کیے جانے والے ان اقدامات کی مخالفت کرتی اور ایران کو اِس محاصرے سے نجات دلاتی جو امریکہ اور یورپ کی طرف سے کیا گیا ہے لیکن او آئی سی کی طرف سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

یوں او آئی سی کی مغرب نوازی کو دیکھتے ہوئے پوری دنیا کے مسلمان ممالک کو ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہے جو مسلم ممالک کو ترقی دے سکے۔ نئی ٹیکنالوجی فراہم کر سکے، ٹیکنالوجی کی دنیا میں مغرب کی غلامی اور اُن کی تقلید سے مسلمانوں کو نکال کر اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکے، مشترکہ معیشت اور کاروبار کے نئے اسلوب اپنانے اور ڈالر کی قید سے نکل کر لوکل کرنسی کے ذریعے ذاتی کاروبار اور معیشت کو بڑھانے کے حوالے سے، بارٹر ٹریڈ پر عمل پیرا ہو کر ایک دوسرے کی جنس سے سستے داموں استفادہ کرنے اور جو ٹیکنالوجی کسی ایک ملک میں ہے لیکن دوسرے میں نہیں ہے۔ اُس سے استفادہ کرنے کے حوالے سے ایک ایسا موقع فراہم کریں جس کے ذریعہ ہمسایہ مسلمان ممالک ایک دوسرے  کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کر سکیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک کے اس معیار کی ترقی کسی بھی صورت میں نہ چین کے حق میں ہے نہ امریکا کےنہ اسرائیل کے اور نہ کسی صورت میں یورپ کے حق میں ہے۔ اگر ایسا ہوا یعنی کم از کم 56 اسلامی ممالک مل کر جب آپس میں کاروبار شروع کریں تو ان تمام دشمن ممالک سے بے نیاز ہو جائیں گے۔جب ان ملکوں کے اندر تعمیر و ترقی کا کام شروع ہوگا تو یورپ اور امریکا کو ان ممالک کے استحصال کا موقع نہیں ملے گا۔ جب ڈالر کی قید سے یہ ممالک نکل جائیں گے تو ڈالر کے ذریعے سے پوری دنیا کی معیشت پر امریکا کا جو  قبضہ ہےاسکا خاتمہ ہوجائے گا اور ان کو بہت بڑا معاشی نقصان ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ اگر مسلمانوں کی تعمیر و ترقی سے امریکہ اور اسرائیل کو نقصان پہنچتا ہے تو پھر او آئی سی کو کیوں پریشانی ہے؟ اگر مسلمان ممالک کے درمیان 72 معاہدے طے پاچکے ہیں تو ان معاہدوں کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکا کو نقصان ہونا چاہئے ،او آئی سی کو کیوں پریشانی ہو رہی ہے؟ اصل میں بات یہ ہے کہ او آئی سی سعودیوں کے ہاتھ میں ہے اور سعودی امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں میں ہیں۔

لہٰذا امریکا، اسرائیل اور باقی یورپی ممالک مل کر ان ہی سعودیوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ سعودیوں کو آگے کرتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کی حفاظت کر سکیں اور اُن مفادات کے ذریعے سے مسلم امہ کو متحد ہونے سے روک سکیں اور اُن کے درمیان ہر قسم کے مفادات کا راستہ روکا جا سکے۔ لہٰذا سعودی ہوں یا اماراتی انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ مسلم امہ کو ہمیشہ انتشار کا شکار رکھیں اور اُس کے مقابلے میں یورپ امریکا اور اسرائیل کی بالادستی کو اِن تمام خطوں پر ہمیشہ قائم و دائم رکھا جائے اور اِن مقاصد کی تکمیل کے لیے او آئی سی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اور جہاں مسلمانوں کے مفادات کی بات ہوگی وہاں پر او آئی سی کبھی بھی کوئی قدم نہیں اٹھائے گی جس کی زندہ مثال ہمارے سامنے کشمیر ہے جس کے مسئلے پر او آئی سی کے ان نمائندہ ممالک نے واضح موقف کے ذریعہ پاکستان کو بتا دیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کی امہ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے اور امہ کا اُس سے کوئی تعلق نہیں ۔

لہٰذا حالیہ ملیشیا کانفرنس کا بنیادی ہدف مسلم امہ کے مفادات کے حصول کے لیے ان بڑے اہم اور انتہائی حساس مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنا تھا اور اُسی پر محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات نے ضرب لگائی۔ ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنی ماضی کی تمام تقریروں ، دعووں اور نعروں کے بر عکس بھاگتے ہوئے گئے اور محمد بن سلمان کے قدموں میں سر رکھ دیا۔ یہی صورتحال ہم نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی دیکھی کہ جو نئے بلاک کی بات کر رہے تھے لیکن اس قضیے میں انہوں نے نئے بلاک کو نہیں بلکہ امارات جیسے انتہائی کمزور ملک کے سر براہ کے قدموں میں بیٹھ کر اسے یقین دہانیاں کروانی شروع کر دیں کہ ہم کوالالمپور کانفرنس میں نہیں جائینگے بلکہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اس لیے کہ ہم آپ کے ملازم اور آپ کے نوکر ہیں۔ اس آؤ بھگت کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ وہ تین ارب ڈالرز ہیں جو سعودیوں اور اماراتیوں نے پاکستانی بینکوں میں رکھوائے ہوئے ہیں۔ گویا ہمیں یہ خطرہ تھا جیسا کہ ہمیں کہا بھی گیا کہ اگر آپ نے کوالالمپور کے اجلاس میں شرکت کی تو یہ ڈالرز ہم واپس نکال لیں گے اور آپ کے جو لوگ ہمارے ملکوں میں کام کر رہے ہیں اُن کو ہم یہاں سے نکال دیں گے اور ان کی جگہ بنگلہ دیشی شہریوں کو ملازمتیں دیں گے ۔

افسوس کی بات ہے جب خون دینے کی باری آتی ہے تو پاکستانی سر فہرست ہوتے ہیں جب اسلامی ممالک کے مفادات کے لیے جنگ کرنے کی باری آتی ہے تو پاکستانی فورسز کو استعمال کرنے کی بات کی جاتی ہے اور جب یمن، کویت یا حرمین کی حفاظت کا مسئلہ ہو تو اُس وقت اِن سب کو پاکستان یاد آتا ہے لیکن جب امہ کے مجموعی مفادات کا معاملہ ہو تو اُس وقت پاکستان کو اُس میں شریک ہونے سے روکا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کی بھی حمیت اور استقلال کا یہ عالم ہے کہ چند ٹکوں کی خاطر ہم ان کی ہر ناجائز خواہش کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں اور پوری دنیا کے اندر اپنی ہزیمت کا سامان فراہم کر دیتے ہیں۔ دنیا میں آج ہماری ساکھ جو تھوڑی بہت رہ گئی تھی اس کانفرنس میں عدم شرکت، یو اے ای اور سعودی عرب کے قدموں میں بیٹھ جانے کے باعث وہ ساکھ بھی مکمل طور پرختم ہو گئی ہے۔ یہ ایک تاریخی موڑ تھا۔ ویسا ہی تاریخی موڑ جب مرحوم وزیراعظم لیاقت علی خان کے سامنے دو راستے تھے کہ وہ روس کی طرف جائیں یا امریکہ کی طرف۔ تاہم وہ روس کی جانب جانے کی بجائے امریکا کی طرف گئے لیکن بعد میں کیا ہوا جب انہوں نے امریکی پالیسیز سے انحراف کرنے کی کوشش کی تو انھیں قتل کر دیا گیا اور یہ قتل امریکا ہی نے کروایا ۔ لیاقت علی خان کا امریکی پالیسیز سے انحراف کرنا اور بعد میں اُن کا قتل ہونا ایک تاریخی لمحہ تھا اور آج عمران خان کی امریکی اور سعودی فرمانبرداری بھی ایک تاریخی لمحہ اور ایک اہم موڑ ہے۔ ہم نے امریکی اور سعودی پالیسیز پر عمل پیرا ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ ہماری گردنوں میں جو غلامی کی زنجیریں انگریزوں نے تقسیم سے پہلے پہنائی ہوئی تھیں وہ زنجیریں ہم آج تک اتار نہیں سکے اور اب بھی ہم ان ہی زنجیروں میں صرف گردن سے ہی نہیں بلکہ ہاتھوں اور پاؤں سے بھی جکڑے ہوئے ہیں۔ ہم مکمل طور پر مقید و اسیر ہیں۔ غلام ہیں اور اُن کے آبرو کے اشارے کے بغیر ہم کوئی آزادانہ قدم اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔انتہائی دکھ کا عالم ہے کہ ہم اسقدر بے حمیت ہو چکے ہیں کہ دنیا نے ہمیں ایک کرایہ کے ٹٹو اور غنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس سے زیادہ ہمیں دوسری حیثیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ جبکہ ہم ایک آزادخودمختار و جمہوری ریاست اور اہم ترین جغرافیائی اسٹرٹیجک علاقہ کی حیثیت سے اور عوامی شرف، حمیت اور غیرت کے بل بوتے پر پوری دنیا کے مسلمانوں کو لیڈ (lead) کر سکتے تھے اور اُن کو دشمنوں کے مقابلے میں یکجا بھی کر سکتے تھے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ چند دلال عربوں کے ہاتھوں ہم بِک گئے ہیں جو خود اپنی حیثیت ہمیشہ داؤ پر لگا چکے ہیں۔ جن کی اپنی نگاہ میں خود کی کوئی عزت نہیں ہے اور جن کی دنیا میں کوئی توقیر نہیں۔ امریکا اور یورپ کے کسی ایک سربراہ کے ایک چھوٹے سے بیان پر وہ اُن کے قدموں پر ڈھیر ہوجاتے ہیں اور ہم ان بے غیرت عربوں کے قدموں پر ڈھیر ہو رہے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے۔

اللہ ہمیں بیداری کی قوت اور ہمارے اس ملک کے حکمرانوں کو ہر طرح کے شعور کی قوت سے نوازے تاکہ ہم ایک آزاد اور باحمیت قوم کے طور پر اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کر سکیں اور اسلام کے اُصولوں اور مملکت کے مفاد کے مطابق ایک آزاد پالیسی کی بنیاد رکھ سکیں۔”

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …