بدھ , 24 اپریل 2024

بھارتی پولیس کے ساتھ ساتھ، انتہا پسند ہندو گروپ بھی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں

لکھنئو: بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے متنازع شہریت قانون متعارف کیے جانے کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں سمیت لاکھوں افراد کا احتجاج جاری ہے جبکہ حکام مسلمانوں کومختلف طریقے سے دھمکا رہے ہیں۔

بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر میں یوپی پولیس کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ کس طرح پولیس مسلمانوں کو دھمکا رہی ہے۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس افسر مسلمان شہریوں کو کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ انہیں کہیں کہ پاکستان چلے جائیں۔دوسرے پولیس افسر کے الفاظ ہیں کہ چند سیکنڈز میں آپ کا مستقل اندھیرا ہوجائے گا۔

پولیس افسر مسلسل دھمکاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں نہیں رہنا چاہتے، دور چلے جاؤ، تم کھاتے یہاں ہو اور گن کسی اور کے گاتے ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے فوٹو لیے ہیں میں ان کو دیکھوں گا، میں یاد رکھوں گا اس بات کو، نوٹ کرلیں۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ جب میں فیصلہ کرتا ہوں تو میں۔۔۔۔۔تک پہنچ سکتا ہوں، آپ یاد رکھیے گا۔پولیس افسر جاتے جاتے دھمکی آمیز لہجے میں کہہ رہے ہیں کہ آپ کو اس کی قیمت چکانی پڑےگی۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یو پی کے وزیراعلیٰ ادیتیہ ناتھ یوگی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے پیغام جاری کیا کہ احتجاج کرنے والا ہر ایک پریشان ہے، یوگی حکومت کی سخت سے ہر کوئی خاموش ہے۔اترپردیش حکومت کی جانب سے رواں ہفتے مظاہرین سے تاوان وصول کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ جو چاہے کریں لیکن جس نے نقصان پہنچایا ہے اس کو نقصان بھرنا ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق ویڈیو میں پولیس افسر اخلیش نرائین سنگھ ہیں جو ضلع میرٹھ میں تعینات ہیں اور وہاں پر 5 مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا جبکہ وہ مقتولین کے پڑوسیوں کو دھمکاتے ہوئے حکم دے رہے ہیں کہ پاکستان چلے جائیں۔یاد رہے کہ بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش نے متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج میں شریک 200 سے زائد مظاہرین سے سرکاری جائیدادوں کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اترپردیش حکومت کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ کم ازکم 230 نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن میں سے اکثریت مسلمانوں کو بھیجے گئے ہیں اور نوٹس میں کروڑوں کے نقصان کا دعویٰ کیا گیا ہے۔بھارت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ہونے والی 25 سے زائد ہلاکتوں میں سے 15 سے زیائد صرف اترپرادیش میں ہوئی تھیں جہاں مسلمان اور انتہا پسند ہندو گروپوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔

واضح رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔متنازع شہریت قانون کے خلاف طلبہ اورمسلمانوں سمیت ہزاروں شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے۔

بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں متنازع بل 9 دسمبر 2019 اور ایوان بالا(لوک راجیا سبھا) میں11 دسمبر کو منظور ہوا تھا جس کے اگلے روز بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد یہ بل قانون بن گیا تھا۔اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 2015 سے قبل بھارت میں داخل ہونے والے غیر مسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کی جائے گی، اس قانون کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

یہ بھی دیکھیں

ترک صدر اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیدیا

انقرہ:ترک صدر رجب طیب اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیا ہے۔ترکی …