بدھ , 24 اپریل 2024

2019 اپنے دامن میں تلخ و شیریں یادیں لئے آج رخصت ہو جائیگا

2019 اپنے دامن میں تلخ و شیریں یادیں اور سال بھر میں مقبول ہونے والے زبان زدعام دلچسپ، معنی خیز فقرے، نعرے، جملے بڑھکیں اور چٹکلے چھوڑ کر آج رخصت ہونے کو ہے۔سال 2019ء کا اختتام صرف ایک سال کا اختتام نہیں بلکہ ایک دہائی کا اختتام ہے۔ ہم اگلی دہائی میں داخل تو ہو رہے ہیں مگر پچھلی دہائی میں جو کچھ ہوا ہے، بالخصوص 2019ء میں جو کچھ ہوا اور ہونا شروع ہوا، اِس کے اثرات ہم اگلے کافی سال تک دیکھتے رہیں گے۔اپنے طرزِ زندگی، سوچ، آزادیٔ خیال، اپنے ماحول، اپنے اقدار اور اس دنیا کے لیے ہم سب کو کچھ اہم فیصلے کرنا پڑیں گے اور کچھ فیصلوں کے خلاف شاید آواز بلند کرنا پڑے۔

بین الاقوامی سطح پر ہم نے 2019میں کئی سالوں سے ہارتے ہوئے رائٹ ونگ نیشنلزم کا عروج دیکھا ہے، یعنی ایک مخصوص قسم کی قوم پرستی نے عروج پکڑا جس کے نتیجے میں دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ملا، جو کھلم کھلا مسلمانوں اور دیگر ممالک کے لوگوں کو برا بھلا کہتا رہا۔ اِس کے نتیجے میں دنیا میں سیاسی درستی کا جو تصور تھا اور اقدار میں جو برابری، انسانی فلاح اور حقوق کی بات بلند ہوئی تھی، اس کا ہمیں زوال نظر آیا۔ مہذب معاشرے میں امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے ناقابل قبول باتوں کو ناصرف بولنا آسان کردیا، بلکہ مقبول بنا دیا۔ اسی رائٹ ونگ نیشنلزم کی زد میں ہم نے کشمیر میں بی جے پی کے کارنامے دیکھے۔ ابھی اس کی گرد نہ تھمی تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی شہریت پر بھی حملہ کر دیا گیا۔ اور سٹیزن امینڈمینٹ ایکٹ (شہریت ترمیمی بل) سے ان کے پاس جو ریلیف کا راستہ بچتا تھا، اس کو بھی چھین لیا گیا۔

ہندوستان میں جہاں مسلمانوں کو دبایا جا رہا ہے، ان کے شہریت کے حقوق چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی احتجاج کے لیے نکل آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’بس اور نہیں! اب نہیں!‘ ۔2019ء میں ہم نے کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی کے خوفناک اثرات بھی دیکھے۔ انسان نے ماحول اور دنیا کی پروا کیے بغیر ترقی کے نام پر جو کام کیے ہیں، ان کے نتیجے میں ہماری دنیا بالکل بدل گئی ہے۔ اسی باعث اب دنیا کو سیلاب، طوفان، سخت سردی اور شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں ہے جو کلائمیٹ چینج سے مکمل طور پر محفوظ ہو۔

2019ء میں کلائمیٹ چینج کی شاید سب سے بڑی مثال آسٹریلیا کے جلتے ہوئے جنگلات ہیں، جو کئی مہینوں سے لگاتار جل رہے ہیں، ہزاروں لوگ اس سبب بے گھر ہوئے، کئی جانیں چلی گئیں اور کچھ چھوٹے شہر تو پورے کے پورے جل کر راکھ ہو گئے۔ ابھی تک یہ آگ لگی ہوئی ہے اور کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔جہاں 2019ء میں ہم نے کلائمیٹ چینج اور رائٹ ونگ نیشنلزم کا عروج دیکھا، وہیں ایک امید کی کرن بھی نظر آئی۔ یہ امید کی کرن ان لوگوں کی صورت میں ہے، جو پہلے خاموش تھے لیکن اب اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ چاہے وہ آواز میڈیا، سوشل میڈیا، احتجاج یا کسی اور شکل میں ہو اور چاہے وہ قومی یا بین الاقوامی مسائل پر ہی اٹھائی جائے لیکن دنیا کے کچھ لوگوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ اِس کو تسلیم کرنے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

2019ء میں ہم نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکیہ کی ظالمانہ پابندیوں کو جاری رہتے ہوئے دیکھا لیکن ساتھ ہی ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایران اس قسم کی پابندیوں کے باوجود زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے اور امریکہ بتدریج عالمی سطح پر گوشہ نشینی کا شکار ہو رہا ہے۔اس سال بھی فلسطین، یمن ،بحرین، شام اور افغانستان کے شہری ظلم کی چکی میں پستے رہے اور اسرائیلی مظالم اپنےعروج کو پہنچے۔ یمن پر سعودی اتحاد کی یلغار اور مظلوم اور نہتے یمنیوں کی شہادت کا سلسلہ جاری ہے، شام اورعراق کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ظالموں کے سامنے نہ جھکنے کی روایت بھی قائم ہے اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے عوام نکل چکے ہیں اور اپنے مسلمہ حقوق حاصل کر کے ہی رہیں گے۔2019ء اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے لیکن جو کچھ شروع ہو چکا ہے وہ اتنی جلدی ختم نہیں ہونے والا۔ بہرکیف آپ کو نیا سال مُبارَک ہو۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …