بدھ , 24 اپریل 2024

فرعون وقت کے آشیانے میں صدائے موسیٰ

تحریر: سید اسد عباس

ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ارب پتی معروف امریکی شخصیت جارج سوروس نے کہا کہ دنیا تاریخ کے ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے، جہاں جمہوری معاشروں اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے انسانی تہذیب کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم پرستی کھلے معاشرے کی سب سے "بڑی دشمن” ہے۔ سوروس ایک بہتر جمہوری نظام کے لیے ملکوں کے درمیان وسیع تر اشتراک کے حامی ہیں۔ وہ 40 سال سے دنیا کے 120 ملکوں میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم اوپن سوسائٹی فاونڈیشنز کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی امن کو سب سے بڑا اور خوفناک دھچکا انڈیا میں لگا ہے، جہاں جمہوری طریقے سے منتخب نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست مملکت ق‍ائم کر رہے ہیں، جنہوں نے مسلم آبادی والے (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر کو اجتماعی طور پر معتوب کر رکھا ہے اور جو ملک کے لاکھوں مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ کی ایک ایسی منزل ہے، جہاں ان مسائل سے انسانی تہذیب کا وجود خطرے میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کے امکان کم ہیں کہ سیاسی رہنماء ان چیلنجز کا سامنا کرنے میں عوام کی تمناؤں پر پورے اتریں گے، کیونکہ یہ سیاسی رہنما موجودہ صورتحال کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں مایوسی کی فضا بنی ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمہوری معاشروں کی اپنی خامیوں کے باوجود ان کے بچ جانے کی امید ہے، کیونکہ قوم پرست اور آمرانہ نظام کی بھی اپنی کمزوریاں ہیں۔ آمرانہ نظام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ جب وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ انہیں کب اور کس طرح جبر پر روک لگانی ہے۔ ان کے نظام میں چیک اور بیلنس کی کمی ہوتی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے، جس سے جمہوریت کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دبے ہوئے لوگ آمریت کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آج ہم یہ پوری دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔

جارج سوروس نے ماحولیاتی صورتحال اور عالمی بے چینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ برس اور آئندہ چند برس صرف امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کے ہی مستقبل کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے انہوں نے کہا ڈونلڈ ٹرمپ ایک نوسر باز اور انتہاء کے نرگسیت پسند شخص ہیں، جو آئینی حدود کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں اور چینی صدر ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ دونوں شخص اقتدار میں نہ ہوتے تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوتی۔ جارج سورس نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیچ دینے کے لیے تیار ہیں اور وہ اگلے انتخابات میں کامیابی کے لیے سب کچھ کریں گے۔ جارج سوروس نے آدھا سچ بولا یا شاید وہ اتنا ہی کہ سکتے تھے۔ یہ وہ آواز ہے، جو عرصہ دراز سے اسلامی دنیا کے ممالک اٹھا رہے تھے، تاہم جب جارج سوروس نے ڈیویس کے اقتصادی فورم پر یہ آواز اٹھائی تو پوری دنیا میں اس کی گونچ سنائی دی۔

جارج سوروس کو امریکی صدر کے ساتھ ساتھ اس ملک پر براجمان اسٹبلشمنٹ اور مفاد پرست ٹولے پر بھی بات کرنی چاہیئے تھی، جو جاپان، ویتنام، افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن اور فلسطین میں لاکھوں انسانوں کے قتل کا باعث بنی ہے۔ انہیں اسرائیلی ریاست پر بھی بات کرنی چاہیئے تھی، جس کے مظالم کے سبب ہزاروں فلسطینی بے جرم و خطا قتل ہوئے اور لاکھوں فلسطینی گذشتہ ستر سے زائد برسوں سے بے گھر ہیں۔ انہیں کہنا چاہیئے تھا کہ اسرائیلی اکائی مشرق وسطیٰ میں بے چینی کی اصل وجہ ہے، یہی فساد کی اصل جڑ ہے، جس کے تحفظ کے لیے امریکا اس خطے میں موجود ہے۔ اس کے باوجود ہمیں جارج سوروس کی حقیقت پسندی کی داد دینی چاہیئے، جنہوں نے ایک سرمایہ دار ہونے کے باوجود بحیثیت انسان انسانیت کے مسائل کے بارے میں سوچا اور اس پر اپنا تجزیہ یا موقف پیش کیا۔ سوروس کا اسرائیل کے خلاف نہ بولنا شاید اس قاتلانہ حملہ کی وجہ سے ہو، جو ان پر پر کیا گیا، جب ان سے امریکی اخبار نیویارکر نے اسرائیل کے بارے سوال کیا تو سوروس نے کہا کہ میں یہودیوں کی قومیت کو تسلیم کرتا ہوں، تاہم میں اس بارے میں کچھ کرنا نہیں چاہتا۔

2016ء میں ان کی تنظیم کی ہیک ہونے والی ای میلوں سے پتہ چلا کہ سوروس کی تنظیم کے اہداف میں اسرائیل کی نسل پرستانہ اور غیر جمہوری اقدامات کو عالمی فورمز پر چیلنج کرنا بھی شامل ہے۔ اپنے ایک آرٹیکل میں سوروس نے لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کے خلاف آنے والا ردعمل اس ملک کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے اور یہودی کمیونٹی کے بارے میں رویہ پرو اسرائیل لابی کے اثرات ہیں، جو وہ مخالف نظریات کو دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ایک تقریب میں سورس نے کہا کہ تشدد اور جارحیت کا شکار ہونے والے آج جارحیت کرنے والے بن چکے ہیں۔ ان کی اس بات پر کئی ایک افراد تقریب چھوڑ کر چلے گئے۔ سوروس اسرائیلی لابی کی جانب سے اکثر قانونی اور صحافتی اقدامات کا سامنا کرتے رہتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خود یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جو ہنگری سے برطانیہ منتقل ہوا۔ سوروس استعماری اور استکباری معاشرے میں اس آواز کی نمائندگی کرتے ہیں، جو فرعونوں کے آشیانے میں بیٹھ کر نہ صرف جرات مندی سے ان پر نقد کرتے ہیں، بلکہ اس نقد کے منفی اثرات کا مقابلہ بھی کرتے ہیں، ایسے انسانوں کے بارے جان کر کم از کم میرا تو انسانیت اور کار پیغمبری کے ثمرات پر یقین بڑھتا اور پختہ ہوتا ہے۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …