جمعہ , 19 اپریل 2024

شہید حاج قاسم سلیمانی ۔  اشترِ وقت

سیدہ سائرہ بانو

بسم تعالی

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ صلے

بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ  راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں۔ (التوبہ: ۱۱۱)

الحمدللہ۔قرآنِ کریم کی اس آیت کی مصداق ہستیوں میں ایک اوراضافہ ہوا ، ۳ جنوری ۲۰۲۰ کی شب عراق کے شہر بغداد میں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بازو قدس فورس کے سپہ سالار حاج قاسم سلیمانی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ڈرون حملے میں شہید کردیاگیا۔  شہید حاج قاسم کی شہادت متوقع تھی۔ وہ اشترِوقت ، خطہ کے علمدار اورموجودہ اورسابقہ امریکی حکومتوں کی آنکھ کا کانٹا تھے کیونکہ وہ امریکی وصیہونی طاغوت کے مقابلہ میں  شام،عراق، فلسطین، یمن اور افغانستان  کی مظلوم عوام کے لئے مزاحمت کی علامت  بن کر اُبھرے۔دنیا انہیں خطہ میں جنگی محاذوں پر  چاق و چوبند سپہ سالارکی حیثیت سےجانتی تھی  لیکن ان کا طرہ امتیاز حرمین انبیاءواہل بیت علیہم السلام کی حفاظت اور تکفیریت کے خاتمےکے لئے داعش کے خلاف قیام تھا۔

شہادت مکتب اہلِ بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے لئے ایک خدائی ہدایت یا الہام کا درجہ رکھتی ہے۔ شہید اس الہام کے ساتھ جنم لیتا ہے، اس کےوجود کی  مٹی اسی الہامی خوشبو میں رچی بسی ہوتی ہے۔   بحیثیت   مجاہدحاج قاسم شہادت کی آرزو رکھتے تھے۔وہ رہبرانقلاب اسلامی ایران  آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کےماتحت اور دستِ راست  تھے لیکن ان دونوں کے درمیان ایک خاص روحانی ربط تھا۔ اس ربط کو رہبر معظم  سید علی خامنہ ای کی حاج قاسم کے بارے میں دی گئی مختلف آراء کی روشنی میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔   رہبر معظمان کی مجاہدانہ صلاحیتوں کے معترف تھے اسی لئے ان کو ”زندہ شہید“ کا لقب دیا۔  رہبرمعظم کو علم تھاکہ  لفظ شہادت جلی حروف میں ان کی پیشانی پر لکھا ہے ، اسی لئے ان کوقیامت کے دن بطورِ شہیداپنی شفاعت کا ضامن قرار دیا۔   کسی بھی شخص کے دنیا سے گزر جانے کے بعد اس کے بارے میں دی جانے والی رائے اس کے کردار پر ثبت مہر کا کام دیتی ہے۔ جب رہبرمعظم حاج قاسم کی شہادت کے بعد ان کے گھر تعزیت و تسلیت کے لئے تشریف لے گئے توسوگواران سے انتہائی خوبصورت انداز میں حاج قاسم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ فرمایا:

”حاج قاسم متعدد بار شہادت کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے لیکن راہ ِخدا میں پیش قدمی، فرائض کی انجام دہی اور جہاد کی بات ہو تو وہ کسی اور چیز کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ دنیا کے خبیث ترین  افراد یعنی امریکیوں کے ہاتھوں جنرل سلیمانی کی شہادت اور اس جرم پر امریکیوں کا فخر کرنا اس شجاع مجاہد کے لئے ایک بڑی خصوصیت ہے۔ان کا جہاد بہت عظیم تھا  اور اللہ تعالی  نے ان کی شہادت کو بھی عظیم شہادت قرار دیا، یہ عظیم نعمت الحاج  قاسم کو مبارک ہو جو اس کے سزاوار تھے۔“

گزشتہ برس جب شہیدحاج قاسم کو فوجی اعزاز ”نشانِ ذوالفقار“ سے نوازا گیا تو اس وقت بھی رہبرانقلابِ اسلامی نے  ان کی توصیف کے لئے نہایت خوبصورت الفاظ کا چناؤ کیا۔ آپ نے فرمایا:

”راہِ خدا میں مجاہدت کا صلہ جو ہو سکتا ہے اور اللہ تعالی نے اپنی راہ میں جان و مال ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھنے کے عوض جو صلہ رکھا ہے وہ بہشت ہے، رضائے  پروردگار ہے۔ ہمارے اختیار میں جو چیز ہے خواہ وہ زبانی شکریہ ہو، یا عملی اظہار تشکر ہو، یا یہ نشان عطا کرنا ہو یا جو رینک ہم دے سکتے ہیں، یہ ساری چیزیں مادی اور دنیاوی حساب کتاب کے اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں، روحانی و الوہی حساب کتاب میں ان کی کوئی بساط نہیں ہے۔ الحمد للہ آپ سب نے یہ جدوجہد انجام دی ہے، محنت کی ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالی نے ہمارے ان برادر عزیز جناب سلیمانی  کو بھی توفیقات سے نوازا۔ بارہا ، بارہا، بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور وہاں پہنچے جو جگہ دشمن کے حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ راہ خدا میں، برائے خدا اور خالصتا لوجہ اللہ آپ نے جہاد کیا۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو اجر عطا فرمائے، آپ پر کرم کرے اور آپ کی زندگی کو با سعادت فرمائے اور آپ کو شہادت نصیب کرے۔ البتہ ابھی نہیں۔ ابھی تو اسلامی جمہوریہ کو برسوں آپ کی ضرورت ہے۔ لیکن بالآخر ان شاء اللہ زندگی کا سفر شہادت کی منزل پر ہو۔ آپ کو (یہ نشان) بہت بہت مبارک ہو۔“

ایک مردِمومن کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے ہاتھ کاکمایا ہوا حلال رزق ہوتا ہے ، لیکن حاج قاسم کی جہاد کے لئےوقف شدہ زندگی نے انہیں اس حق سے بھی بےنیاز کردیا۔ سپاہِ قدس میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام علی شیرازی کہتے ہیں :

” سلیمانی  اپنی تعیناتی کے دوران  ایک ریال یا ایک ڈالر لینے کے بھی روادار نہ تھے اور اکثر مجھ سے کہتے میں اپنے بیوی بچوں کے اخراجات خود برداشت کرتا ہوں۔ اگرچہ قاسم سلیمانی کی شہادت ہمارے لیے انتہائی بڑا صدمہ ہے لیکن وہ ہمیشہ اس کی آرزو کرتے تھے اور میں جانتا ہوں کہ یہ ان کی چالیس سالہ خواہش تھی۔“

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سیدحسن نصراللہ اور شہیدحاج قاسم ۲۰۰۶ کی اسرائیل جنگ میں اور اس کے بعد قریب تر رہے۔سیدحسن نے ان کی کرشمہ ساز شخصیت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

”وہ ایک لامحدودشخصیت تھے۔ دوسرے مجاہدین سے یکسرمختلف اور نمایاں! میدانِ جہاد کا ہرمجاہدان کی زیارت اور ملاقات کےلئےبیتاب رہتاتھا۔ ہم نے ان کوکبھی خستہ نہ دیکھا۔ وہ مسلسل جہاد یاپھرشہادت کےقائل تھے۔انہوں نے سرحدپارجہاد کووطن میں قیام پرترجیح دی۔“

وطن سے ہجرت اور حق کی راہ میں لڑتے ہوئے جان قربان کرنا سیرتِ انبیاءو معصومین علیہم السلام ہے، حاج قاسم نے اس سنت کو زندہ رکھا۔اگر مدافع حرم حضرت زینب سلام اللہ علیہاحاج قاسم ۱۹۲۵/۱۹۲۶ میں موجودہوتے توانہدام جنت البقیع کا المناک سانحہ  پیش نہ آتا۔

شہیدحاج قاسم سلیمانی کی ظاہری شخصیت کا طاقتورترین پہلو ان کی فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔  وہ بلاکےذہین تھے۔ صیہونی طاقتیں ان کی ذہانت اور نظریہ سے خائف تھیں کیونکہ ان کے نزدیک حاج قاسم کی مجاہدانہ کامیابیوں میں ان کے نظریاتی ہونے کا عمل دخل بھی شامل تھا۔  مغربی میڈیا نے خطہ میں ان کےمجاہدانہ کردارکومتنازع بناکرپیش کرنے کی سرتوڑکوشش کی لیکن شہادت کے بعد ان کو غیرمعمولی پذیرائی ملی اور وہ ایک عالمی شخصیت کے طورپر سامنے آئے۔لوگ ان کے اہداف سے آگاہ ہوئے اور ان کی جدوجہد کو مزاحمت ومقاومت کا امتزاج قراردیا۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو شہادت کی تمنا کرتے ہیں اور خدا ان کوشہادت کے لئے چُن لیتا ہے۔ شہیدحاج قاسم سلیمانی کی شہادت نے امریکہ کے حقیقی چہرے کو ایک بار پھر آشکار کیا ہے،بہت جلدہمیں اس شہادت کاثمر امریکہ کے خطہ سے مکمل انخلاکی شکل میں ملےگا ۔ یقینا شہیدحاج کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہے جن کو وقت کے امام (عج) قم باذن اللہ کہ کر پکاریں گےاور وہ اُس وقت بھی اشترِ وقت بن کرامام کے ساتھ قیام فرمائیں گے۔ ان شاءاللہ۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …