برسلز : 2016 ء میں انقرہ اور برسلز نے ترکی سے مہاجرین کے یورپی یونین میں غیر قانونی داخلے کی روک تھام سے متعلق ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ اب اس معاہدے سے دونوں ہی ناخوش ہیں، تاہم اس پر نظر ثانی بھی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ یورپی اتحاد اور ترکی کے مابین 4 سال قبل یہ معاہدہ طے پایا تھا، جسے ’’تارکین وطن معاہدہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں طرفین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ غیرقانونی طور پر ترکی کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کو اس عمل سے روکنے کے لیے ممکنہ کوششیں کی جائیں گی۔ تاہم مہاجرت سے متعلق امور کے ماہر اور محقق گیرارڈ کناؤس کا کہنا ہے کہ اگر ترکی کو مالی اعانت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے تو اس معاہدے کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ واضح طور پر انقرہ میں مرکل کا سب سے اہم بیان ترکی کو پناہ گزینوں کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کرنے کا امکان ہی تھا، لیکن کناؤس اس سے بھی زیادہ تشویشناک مسائل سے خبردار کر رہے ہیں، جن کے حل نہ ہونے کی صورت میں اس معاہدے کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین یونانی جزیروں پر پہنچنے والے پناہ گزینوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر انسانی اور منصفانہ مؤثر کارروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ گیرارڈ کناؤس نے کہا کہ اصولی طور پر پناہ کا نظام ٹوٹ چکا ہے۔ فی الحال ایسے پناہ گزینوں کو ترکی واپس بھیجے جانے کے امکانات صفر ہیں، جن کی پناہ کی درخواستیں یورپی یونین کی طرف سے مسترد ہو چکی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر یورپی یونین نے اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا تو تارکین وطن معاہدہ دم توڑ دے گی۔ دوسری جانب اس معاہدے کے مؤثر ہونے پر یورپی یونین کو بھی شکوک و شبہات ہونے لگے ہیں۔