مگر جن کو ان کے سامنے جیتے جاگتے، کھلی آنکھوں سے دن کی روشنی یا رات کی تاریکی میں اٹھایا گیا، ان کی مائیں تو ہر شام کو دروازے کی طرف تکتی رہ جاتی ہیں اور ان کی امید کا دیا ہر شب کے ساتھ بجھ جاتا ہے، جب ان کا پیارا نہیں لوٹتا، ان کا درد جدا ہوتا ہے، ان کا دکھ الگ ہی ہوتا ہے، اس لئے کہ ہر شام ان کی امید کی کرن بجھتی ہے اور ہر نئی صبح کا سورج ان کیلئے نئی امید لے کر طلوع ہوتا ہے کہ شائد۔۔۔ شائد آج آجائے اور اسی امید میں اس کے ورثاء اور پیارے دروازے کی طرف تکتے رہتے ہیں۔۔۔ ہاں ان لوگوں کا درد ہم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے بہت سے پیارے ایسے ہی یہاں غائب کئے گئے ہیں، ایسے ہی اٹھائے گئے ہیں، ایسے ہی کال کوٹھڑیوں میں پھینکے گئے ہیں، ایسے ہی ان کے بچوں کے سامنے انہیں اٹھایا گیا ہے، ایسے ہی انہیں عدالتوں سے ماوراء قید کیا گیا ہے، ان کی زندگی اور موت کا کوئی پتہ نہیں، ان کے حال اور مستقبل سے کسی کو علم نہیں، خفیہ ایجنسیوں کا طریقہ کار ایک سا ہوتا ہے، ان کا انداز ایک ہی طرح کا ہوتا ہے، انکے مقاصد ایک جیسے ہوتے ہیں، ان کی کارروائیاں ملتی جلتی ہیں۔ اس میں مسلم، غیر مسلم یا پاک و ہند کا فرق نہیں ہوتا، یہ خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں، جن کے اپنے اصول اور اپنی دنیا ہوتی ہے۔
ایک شاعر احمد فرہاد نے بہت خوب ترجمانی کی ہے۔
یہ لوگ ایک عرصہ سے کرفیو میں زندگی گزشار رہے ہیں، ان کے بنیادی ترین حقوق پائمال ہیں، ان پر آگ و بارود کی بارش ہے، ان کیلئے کھانا پینا، کاروبار، تعلیم، انٹر نیٹ، سفر، اسپتال، بنیادی ترین دوائیں اور مرنے والوں کیلئے کفن کا کپڑا ناپید ہے، سخت ترین سردی میں ان کا جینا محال ہے مگر نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ اور امریکہ و برطانیہ سمیت سب نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے، بھارت ایک نام نہاد بڑی جمہوریت بنا ہوا ہے، جسے دنیا ایک بڑی مارکیٹ کہتی ہے، چونکہ اس کی آبادی بہت زیادہ ہے اور عالمی سطح پر کوئی ملک بھی اس مارکیٹ کو کھونا نہیں چاہتا،حتیٰ کھیل کے میدان میں بھی وہ اپنی مرضی کرتا ہے، اس لئے کہ اسپانسر شپ کا مسئلہ ہے، اہل کشمیر پر روا رکھا جانے والا سلوک تو ایک طرف اگر کسی مسلمان ملک میں عام سے مظاہرین پر لاٹھی چارج یا گرفتاریاں ہوتی ہیں تو عالمی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امریکہ چیخ پڑتا ہے، پابندیاں لگاتا ہے، ایران میں چند سو ایجنٹوں سے مظاہرے کروا کر وہاں کے قانون کو توڑنے والوں کی امریکی صدر اور وزیر خارجہ کھل کر حمایت کرتے ہیں اور ایران کو اس مسئلہ پر دھمکیاں دیتے ہیں۔
پاکستان میں منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری پر عالمی میڈیا چیختا ہے، رپورٹس چلاتا ہے، مگر اہل کشمیر کا درد بیان کرنا ان کے حق میں آواز بلند کرنا، ان کیلئے قراردادیں پیش کرنا، ان کا مقدمہ لڑنا، ان پر ظلم کرنے والے بھارتی حکمرانوں پر پابندیاں لگانا اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور یورپ سب کیلئے ایک بھیانک خواب ہے۔ سب کچھ دیکھتے، جانتے بوجھتے یہ مکار قوتیں مودی کو اپنے اپنے ممالک میں اضافی پروٹو کول دیتے ہیں اور تو اور عرب امارات اور سعودی عرب نے تو حد کر دی ہے، تجارت اور تعلقات تو ایک طرف مودی کیلئے اپنے ممالک کے اعلیٰ ترین اعزازات اور انعام و اکرام و تحائف سے نوازنا اہل کشمیر کے رستے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران اور بااختیار ادارے بھی مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے حل کرنے کیلئے منظم جدوجہد نہیں کر رہے، جیسے ایران نے اسرائیل کی تباہی کیلئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اور اس کیلئے کوشاں دکھائی دیتا ہے، ایسے ہی پاکستان کو بھی ایک ہدف مقرر کرنا چاہیئے، تاکہ اہل کشمیر میں بہتر برس سے جاری ظلم کی تاریک اور اندھیری رات کا خاتمہ ہو، یہ مسئلہ فقط ایک دن کیلئے مخصوص نہیں ہونا چاہیئے بلکہ جب تک کشمیر بھارت سے آزاد نہیں ہو جاتا کوئی دن بھی ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو بھول جائیں۔