ہفتہ , 20 اپریل 2024

وزیراعظم کی سوشل میڈیا قواعد پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کی ہدایت

اسلام آباد: سوشل میڈیا کے حوالے سے متعارف کروائی گئی حالیہ ’پابندیوں‘ پر بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد وزیراعظم عمران خان نے متعلقہ حکام کو ان قواعد کے نفاذ سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کی ہدایت کردی۔

ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ تمام انٹرنیشنل سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کمپنیاں پاکستان میں کام جاری رکھیں گی اور حکومت ان کے تحفظات دور کرے گی۔

اس بارے میں سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی شعیب صدیقی نے بتایا کہ ’اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نئے قوانین کے نفاذ سے قبل تمام بین الاقوامی اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے گا‘۔

اجلاس میں شرکت کے بعد سیکریٹری انفارمیشن کا مزید کہنا تھا حکومت، انٹرنیشنل انٹرنیٹ کمپنیوں سے رابطے میں ہے اور جلد ان کے نمائندوں کو ایک اجلاس کے لیے بلایا جائے گا تاکہ انہیں نئے قوانین سے آگاہ کیا جاسکے اور پاکستان میں سوشل میڈیا ریگولیشن کے لیے ان کی تجاویز حاصل کی جاسکیں۔

دوسری جانب رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے حکومت سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے متعارف کروائے گئے قواعد ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کی ریگولیشن ضروری ہے لیکن یہ سینسر شپ کا بھیس بدل کر نہیں کرنی چاہیے۔

آر ایس ایف نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹرنیٹ کو گھٹنوں پر لانے کی کوششوں کے ساتھ ڈھٹائی سے آگے بڑھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے نئے قواعد(سیٹیزن پروٹیکشن اگینسٹ آن لائن ہارم رولز، 2020) 28 جنوری کو ایک خفیہ میمو میں منظور کیے‘۔

آر ایس ایف ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل بسٹارڈ کا کہنا تھا کہ ’ریگولیشن میں استعمال کردہ مبہم اور غیر واضح زبان حکومتی اقدامات کی صوابدیدی نوعیت کی گواہی دیتی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم وفاقی حکام پر زور دیتے ہیں کہ ان قواعد کو ختم کیا جائے جو صحافیوں کے کام خصوصاً ان کے ذرائع کی رازداری کے حوالے سے بڑا خطرہ ہیں، سوشل میڈیا کی ریگولیشن ضروری ہے لیکن اسے سینسرشپ کے بھیس میں نہیں ہونا چاہیے‘۔

آر ایس ایف کا مزید کہنا تھا کہ یہ قواعد سوشل میڈیا کمپنیوں پر حکومتی کنٹرول کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کردہ اقدامات ہیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ان کمپنیوں کو ‘پاکستان میں دفتر کھولنا پڑے گا اور مقررہ مدت کے اندر اگر کوئی مواد بلاک یا ہٹانے میں ناکام رہے تو 50 کروڑ روپے کا جرمانہ ہوگا‘۔

خیال رہے کہ 15 فروری کو انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجیز کی بڑی کمپنیوں مثلاً فیس بک، ٹوئٹر، گوگل، ایمازون، ایئر بی این بی، ایپل، بکنگ ڈاٹ کام، ایکسپیڈیا گروپ، گریب، لنکڈ ان، لائن، راکوٹین اور یاہو (اوتھ) پر مشتمل صنعتی اتحاد ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط ارسال کیا تھا۔

خط میں انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے حکومت کے نئے قواعد سے پاکستان میں ڈیجیٹل کمپنیوں کا کام کرنا ‘انتہائی مشکل ہوجائے گا‘۔

اے آئی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر جیف پین نے خط میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہ قواعد پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کو بری طرح اپاہج کردیں گے’۔

علاوہ ازیں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور صحافتی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے بھی حکومت سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا۔

ایچ آر سی پی نے نئے قوانین پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا، جس کے تحت سوشل میڈیا پر مجاز اداروں کو آزادی اظہار رائے کو ‘مذہبی، ثقافتی، نسلی و قومی سلامتی کے لیے حساس مسائل’ کا تحفظ کرنے کے لیے کنٹرول حاصل ہوگا۔

سوشل میڈیا ریگولیٹری قواعد
خیال رہے کہ 28 جنوری کو وفاقی حکومت نے ملک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دی تھی جس کا اعلان 12 فروری کو کیا گیا تھا۔

ان اصولوں کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 50 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد ہوگا۔

اس میں جو معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں ان میں صارف کی معلومات، ٹریفک ڈیٹا یا مواد کی تفصیلات شامل ہیں۔

ان قواعد و ضوابط کے تحت اگر کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو تحریری یا الیکٹرانک طریقے سے ’غیر قانونی مواد‘ کی نشاندہی کی جائے گی تو وہ اسے 24 گھنٹے جبکہ ہنگامی صورتحال میں 6 گھنٹوں میں ہٹانے کے پابند ہوں گے۔

علاوہ ازیں ان کمپنیوں کو آئندہ 3 ماہ کے عرصے میں عملی پتے کے ساتھ اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ان کمپنیوں کو 3 ماہ کے عرصے میں پاکستان میں متعلقہ حکام سے تعاون کے لیے اپنا فوکل پرسن تعینات کرنا اور آن لائن مواد کو محفوظ اور ریکارڈ کرنے لیے 12 ماہ میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرورز قائم کرنا ہوں گے۔

یہ بھی دیکھیں

رحیم یار خان : دو قبیلوں میں تصادم کے دوران آٹھ افراد جاں بحق

رحیم یار خان:رحیم یار خان کے نزدیک کچھ ماچھک میں دو قبیلوں میں تصادم کے …