جمعرات , 18 اپریل 2024

امریکہ طالبان مذاکرات تازہ صورتحال

تحریر: سید اسد عباس

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ معاہدہ 29 فروری کو ہوسکتا ہے۔ یہ بات انہوں نے سعودی عرب کے دورے کے بعد ایک بیان میں کہی۔ مائیک پومپیو نے کہا کہ تشدد میں کمی کے حوالے سے ہونے والی مفاہمت پر کامیابی سے عمل درآمد کی صورت میں امریکہ اور طالبان کے مابین 29 فروری کو معاہدہ ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی مذاکرات کاروں اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ایک ہفتے کے لیے تشدد میں کمی کی جس مفاہمت پر اتفاق کیا تھا، اس کا آغاز 22 فروری یعنی جمعہ بارہ بچے شب سے ہو رہا ہے۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدہ بین الااقوامی مبصرین کی موجودگی میں ہوگا۔ امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات 29 فروری کو معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد شروع ہوں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ابھی مشکلات کا سامنا ہے، لیکن ابھی تک جو پیش رفت ہوئی ہے، وہ امید افزا ہے اور یہ ایک افغانوں کے لیے اہم موقع ہے، جسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے۔

افغان سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری توجہ اس پر ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ہم امن لا سکیں۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھ کہ افغان سکیورٹی فورسز کو تیار رہنے کا حکم بھی دیا گیا ہے جبکہ اس جنگ بندی کے باوجود داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپریشن اور دیگر سرگرمیاں بدستور جاری رہیں گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2001ء میں امریکی سربراہی میں ایک بین الاقوامی اتحاد نے القاعدہ کو پناہ دینے کے الزام میں طالبان کی حکومت کو ختم کیا، امریکا نے افغانستان میں سول حکومت قائم کرنے اور امن کو بحال کرنے کی بھرپور کوشش کی، تاہم طالبان کے ساتھ امریکہ اور افغان فورسز کی جنگ مسلسل جاری رہی۔ وہ طالبان جن سے 2001ء میں افغانستان کی حکومت چھین لی گئی تھی، اس وقت بھی افغانستان کے ایک بڑے رقبے پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ایف ڈی ڈی لانگ وار جرنل کے مطابق طالبان کا اس وقت 70 اضلاع پر مکمل کنٹرول ہے جبکہ 190 اضلاع ایسے ہیں، جہاں حکومت اور طالبان میں جنگ جاری ہے، یعنی وہ بھی حکومتی تصرف میں نہیں ہیں۔ حکومت افغانستان اس وقت فقط 133 اضلاع پر حاکم ہے، جہاں طالبان جب چاہتے ہیں حملہ کرسکتے ہیں۔

امریکہ کی ہمیشہ خواہش رہی کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں، جبکہ طالبان کا موقف تھا کہ وہ براہ راست امریکہ سے بات کریں گے، کیونکہ افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ہے۔ امریکہ نے بالآخر طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات کرنے کا آغاز 2018ء میں کیا۔ قطر، پاکستان نیز دیگر اہم مسلم ممالک کو ان مذاکرات میں شامل کیا جاتا رہا، تاہم یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے رہے۔ ستمبر 2019ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ ایک سال طویل امن مذاکرات کو معطل کر دیا تھا۔ امریکہ کے بقول اس کے طالبان سے براہ راست مذاکرات کا مقصد امریکی فوج کے انخلا کے بدلے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغان سرزمین پر غیر ملکی انتہاء پسندوں کو رہنے یا یہاں سے حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکہ اور نیٹو افواج کے اس وقت سترہ ہزار فوجی افغانستان میں تعینات ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے انتخابی کمپین میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کا خاتمہ کریں گے اور امریکی فوجیوں کو خیریت سے واپس لائیں گے۔

ستمبر 2019ء میں ٹرمپ نے مذاکرات کا خاتمہ ایک امریکی فوجی کے قتل کی وجہ سے کیا۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کا تمغہ اگلے انتخابات سے قبل اپنی چھاتی پر سجا لیں، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پیشرفت خوش آئند ہونے کے باوجود زیادہ امید افزا نہیں ہے، کیونکہ یہ کوئی جامع معاہدہ نہیں ہوگا، اس معاہدے کے بارے میں فی الحال وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ افغانستان میں امن کو بحال کرنے کے لیے ہے یا فقط امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کرنے کے لیے۔ مبصرین کے مطابق اس معاہدے سے جہاں امریکہ افغانستان میں اپنی طویل جنگ کو اختتام دے سکے گا، وہیں افغان حکومت کے لیے اس کے بعد کٹھن فیصلے ہوں گے۔ افغانستان میں انتخابات کے نتائج کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے، جن میں اشرف غنی کامیاب رہے۔ اشرف غنی کے مخالف عبداللہ عبداللہ نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت قائم کریں گے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان بھی ان انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے؟ اور ایسی کسی بھی صورتحال کے پیدا ہونے سے امریکہ کا کیا ردعمل ہوسکتا ہے۔؟

افغانستان میں امریکہ عجیب و غریب کشمکش کا شکار ہے، وہ اپنی تنصیب کردہ حکومت کو بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے، تاکہ وہ خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے، تاہم وہ مخالفین کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے سے قاصر ہے، جن میں ایک جانب طالبان ہیں، جو افغانستان کے ایک بڑے علاقے پر کنڑول کے حامل ہیں اور دوسری جانب خود جمہوری حریف۔ امریکہ افغان حکومت کے بوجھ کو اتارنا بھی چاہتا ہے اور اس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال بھی کرنا چاہتا ہے۔ میری نظر میں یہ مسئلہ اب امریکہ کی دسترس سے نکل چکا ہے۔ خطے کے دیگر اہم ممالک ہی افغان مسئلہ کا کوئی قابل عمل حل پیش کر سکتے ہیں، وہی اس حل کو نافذ کرسکتے ہیں۔ نیٹو اور امریکہ کو ایسے ہی اس خطے سے اپنے پر پرزے سمیٹنے ہیں، جیسے اس سے قبل اسے شام سے سمیٹنے پڑے، عراق سے سمیٹنے پر تذبذب کا شکار ہے۔ افغانستان سے بھی یہ انخلا اب دور نہیں

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

اسرائیل دنیا کی ہمدردیاں کھو چکا ہے: امریکی عہدیدار

واشنگٹن:امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مارک وارنر نے کہا کہ یہ …