منگل , 23 اپریل 2024

ترقی یافتہ ممالک میں سکول کی تعلیم اور بچوں کی تربیت

تحریر:قرۃ العین صبا

پچھلے دنوں اساتذہ اور ان کے رویوں کے بارے میں کچھ تحریریں پوسٹ کیں۔ جہاں بہت سے لوگوں نے سراہا اور اتفاق کیا وہیں کچھ لوگوں نے تنقید بھی کی اور والدین اور بچوں کو بھی برابر کا مورد الزام ٹھہرایا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تعلیم و تربیت میں والدین اور اساتذہ دونوں کا کردار ہی اپنی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن تبصرے پڑھ کے یہ اندازہ بھی ہوا کہ بہت سے لوگ باہر کے ممالک اور وہاں کے استادوں کے نرم رویوں کو اس بات کا نتیجہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اور بچے زیادہ مہذب اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں جبکے یہ ایک غلط تاثر ہے۔

جب ہم نئے نئے کینیڈا آے تو کچھ ٹیچنگ کا شوق بھی تھا اور ساتھ ساتھ دماغ میں یہ خیال بھی تھا کہ کچھ کر سکے نہ کر سکے ایک ڈگری کے ساتھ ٹیچر تو بن ہی جائیں گے۔ کچھ قصّے امریکہ میں مقیم لوگوں کے بارے میں بھی سن چکے تھے جو اپنے وطن سے ہی گئے تھے اور مختلف اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ بعد میں خود بھی امریکہ کی مختلف ریاستوں میں جانا ہوا تو اندازہ ہوا کہ وہاں اگرچہ بچوں کے لئے قانون اور اصول کینیڈا جیسے ہی ہیں لیکن تھوڑی بہت محنت سے آپ ٹیچنگ کی فیلڈ میں قدم رکھ سکتے ہیں (کسی کسی ریاست میں بہت زیادہ قوائد و ضوابط بھی لاگو نہیں ہوتے ) شاید اس لیے کہ امریکہ، کینیڈا کے مقابلے میں ایک دیو نما ملک ہے اس لیے وہاں کی اکانومی اور لوگوں کے لئے ملازمت کے مواقع بھی زیادہ ہیں۔

دوسری طرف کینیڈا میں صورت حال خاصی گھمبیر ہے۔ اول تو فقط کسی ایک فیلڈ میں ڈگری آپ کو یہاں کے سرکاری اسکول میں ٹیچر نہیں بنا سکتی۔ اسکول ٹیچر کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس بی ایڈ کی ڈگری ہو۔ عموماً ٹیچنگ کی فیلڈ میں جانے والے لوگ اپنی پسند کی گئی فیلڈ کے ساتھ ساتھ بی ایڈ یعنی ایجوکشن میں بھی برج پروگرام کے تحت ڈگری کرتے ہیں اس طرح ان کے پاس ان کے خاص مضمون کے ساتھ ایجوکشن کی بھی ڈگری ہوتی ہے اس کے دوران ان کو یہ بھی طے کرنا ہوتا ہے کہ آیا وہ پہلی سے پانچویں یعنی ایلیمنٹری لیول کو پڑھاہیں گے، مڈل یعنی چھٹی سے آٹھویں تک یا پھر ہائی اسکول نویں سے بارہویں تک کو اور ان کے بنیادی مضمون کیا ہوں گے اسی حساب سے ان کا پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے، اس کے بعد وہ انٹاریو کالج آف ٹیچر سے لائسنس یافتہ ہو جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ چھوٹی کلاسوں یعنی پری اسکول اور کنڈر گارٹن کے لئے الگ ڈپلوما اور سرٹیفکیٹ پروگرام ہوتے ہیں جنہیں ای سی ای (early childhood education ) کہا جاتا ہے ان کا دورانیہ مختلف کالجوں اور آپ کے چننے ہوے کورسز کی بنیاد پہ نو ماہ سے دو سال تک پر مبنی ہوتا ہے اور اس میں آپ کو ٹریننگ کے طور پہ ماحول اور طریقہ کار جاننے کے لئے ڈے کیئر یا چھوٹی کلاسوں میں مخصوص گھنٹوں کی placement بھی کرنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد آپ کسی جگہ ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیٹر کی جاب اپپلائی کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں وہ لوگ فائدے میں رہے جو اپنے ملکوں سے بی ایڈ کی ڈگری کر کے آئے تھے۔ تھوڑی سی جدوجہد اور پڑھائی کے بعد کہیں نہ کہیں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ جب ہم نے کینیڈین بی ایڈ کی ڈگری کے بارے میں معلومات لی تو یہاں یارک یونیورسٹی اس ڈگری کے لئے اچھی سمجھی جاتی ہے وہاں پتا چلا کہ ہر سال ہزاروں کے حساب سے اس پروگرام کے لئے اپپلکشن جمع کی جاتی ہیں اور جگہ صرف چند سو کی ہے۔ کونسلر نے ہمیں بتایا کہ لوگوں نے اپنی اپلیکشن کو مضبوط کرنے کے لئے ہزاروں کے حساب سے اسکولوں میں والنٹیر کیا ہوا ہے یعنی فری کا کام اور ان سب دشوار گزر مرحلوں سے گزرنے کے بعد بھی سرکاری اسکول بورڈ میں ٹیچنگ کی جاب حاصل کرنا بہت مشکل کام ہیں کیونکہ جب ٹیچر ایک بار انٹر ہو جایں تو ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں۔ان اسکولوں میں اپنی جگہ بنانے کا دوسرا طریقہ ہے والنٹیر ورک یعنی مفت میں کسی اسکول میں مدد کرنی شروع کر دی جائے اکثر مستقل مزاجی سے ایک دو سال کام کرنے والوں کو اسکول اپنے طور پہ چھوٹی موٹی ٹریننگ کروا کے کسی اسسٹنٹ یا مددگار کے طور پہ جاب دے دیتا ہے لیکن یہ ایک طویل صبر آزما کام ہے جس میں نتیجے کی کوئی گارنٹی نہیں۔

اچھے پرائیویٹ اسکول بھی صوبائی طور پہ لائسنس یافتہ سرٹیفائیڈ ٹیچر مانگتے ہیں۔ چھوٹے موٹے کھلے پرائیویٹ اسکولوں میں بغیر ٹیچنگ سرٹیفکیٹ کے ٹیچر تو رکھ لیا جاتا ہے لیکن گورنمنٹ اسکولوں کے مقابلے میں تنخواہ بے حد کم ہوتی ہے اور چونکہ قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جاتا اس لیے اسکول کا معیار بھی تنزل کا شکار ہوتا ہے اور اساتذہ کے رویے بھی کچھ ”اپنے اپنے“ سے محسوس ہوتے ہیں۔ ان سارے مرحلوں سے گزر کے اسکول ٹیچر بننے کے بعد بھی گاہے بگاہے اساتذہ کے لئے اسکولوں میں پروفیشنل ایکٹیویٹی کے دن ہوتے ہیں جن میں تعلیم، تربیت اور بچوں کی نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہوے مختلف طریقوں سے تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان تمام امتحانوں کی بھٹی سے گزر کر جو شخصیت تشکیل پاتی ہے وہ شریر سے شریر اور بد تمیز سے بد تمیز بچے کو بھی ”ہنی“ اور ”لوو“ کہہ کے مخاطب کرتی ہے اور اس کے حوصلے کی داد دینے کو دل چاہتا ہے۔اسکول کے قوانین کی بات کی جائے تو یہاں عام سرکاری اسکولوں میں یونیفارم نہیں ہوتے اس لیے لباس کا اصول کسی پہ لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اسکول اور ٹیچر میں سے کوئی بچے کی ظاہری شخصیت جیسے بالوں کا انداز، جوتوں، کپڑوں، وغیرہ پہ تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا، یہ بچے کا ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس پہ منفی تبصرہ بھی ”بلینگ“ کے زمرے میں آتا ہے ( بالوں کی پونی باندھنے یا قینچی چلانا یہاں کسی جرم سے کم نہیں)۔اسکول کے کسی فرد کو بشمول ٹیچر بچوں کو ہاتھ لگانے یا چھونے کی اجازت نہیں۔ حتی کہ کنڈر گارٹن میں بھی بچے جب باتھ روم جاتے ہیں تو چونکہ اس کا آغاز تقریبا چار سال کی عمر سے ہوتا ہے تو بچے سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کو خود پورا کرنے کے قابل ہوگا اس لیے احتیاط اور حفاظت کے پیش نظر کسی بڑے کو بچے کی مدد کے لئے بھی ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ان سب باتوں سے بے نیاز اسکول اور اساتذہ کچھ اور باتوں پہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ مثلا یہ نظر میں رکھا جاتا ہے کہ گھر میں بچے سے مار پیٹ تو نہیں کی جا رہی؟ آیا بچہ گھر سے مناسب لنچ لے کر آ رہا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اسکول کا دورانیہ کافی لمبا ہوتا ہے اس لیے سنیک اور لنچ کے لئے دو بریک ملتی ہیں۔ اسکول میں کینٹین کا کوئی تصور نہیں ہوتا اس لیے ہر حالت میں لنچ گھر سے ہی جاتا ہے اب چاہے بچہ کھاے، بچا کے لاے یا پھینک دے آپ کو اسے لنچ دینا ہی دینا ہے۔ایک بار ایسی ہی صورت حال سے تنگ آ کے ہم نے فاطمہ سے پوچھا کہ بس وہی لے کر جاؤ جو کھا لو گی، کہنے لگی ایک کیلا دے دیں۔ کیوں کہ کیلے بھی یہاں خاصے جہازی سائز کے ہوتے ہیں اور ہم بچا ہوا لنچ کھا کھا کے اور پھینک پھینک کے تنگ آ چکے تھے ہم نے چپ چاپ کیلا پیک کر دیا۔ دوپہر میں اسکول سے فون آیا کہ فاطمہ اپنا لنچ نہیں لائی ہیں۔ ہم نے کہا نہیں وہ لے کے گئی ہے اس کے پاس ”بنانا“ ہے۔ جواب آیا وہ اسنیک ہے، لنچ نہیں۔

دوسری قابل ذکر بات جو اکثر سنی وہ بالوں کی صفائی ہے ایک بار کلاس کے کسی بچے کے سر میں جوؤں کا شبہ ہو جائے تو اگر یہ شک ہلکا پھلکا سا ہو تو پوری کلاس کے بچوں کے گھر نوٹیفیکشن بھیجا جاتا ہے جسمیں ”جوں“ کی تصویر کے ساتھ مکمل آگاہی دی جاتی ہے کہ یہ ایسی لگتی ہے اس کے اتنے پاؤں ہوتے ہیں یہ ایک سے دوسرے سر میں پھیل جاتی ہے وغیرہ وغیرہ ایک بار وہ نوٹیفیکشن دیکھنے کا اتفاق ہوا تو بہت ہنسی آئی۔ اس معاملے کو اتنے جدید اور حساس پیراے میں دیکھنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ اگر کیس کی تصدیق ہو جائے تو بچے کو گھر روانہ کر دیا جاتا ہے اور ساتھ میں ایک ہدایت نامہ بھی بھیجا جاتا ہے۔ والدین کو کچھ روز یا ہفتے کا وقت دیا جاتا ہے اور پھر ایک نرس بچے کا سر چیک کر کے جب تک اطمنان بخش نوٹ لکھ کے سیف قرار نہیں دے دیتی بچہ اسکول نہیں جا سکتا۔

ایک بار اسی طرح ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ فاطمہ نے اس دن اسکول سے چھٹی کی تھی غالبا کلاس ون کی بات ہے۔ ماؤں کے واٹس اپ گروپ سے چلا کہ آدھی کلاس کو آج جوؤں کے شبے میں گھر واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ایک ماں جن کی پیدائش کینیڈا ہی کی تھی معصومیت سے پوچھ رہی تھیں کہ اس سلسلے میں کوئی پروفیشنل سروس دستیاب ہے جہاں بچی کی صفائی کروائی جا سکے؟ ۔ ہم پڑھ کے خوب ہنسے بلکے سچ کہیں تو دل چاہا کہ اپنی خدمات پیش کر دیں کیونکہ اپنے ملک میں تو یہ ایک عام سی بات ہے۔آج بھی شادی بیاہ یا کوئی ایسا موقع ہو جہاں بچے جمع ہو رہے ہوں تو آفٹر افیکٹس سے احتیاط کے طور پہ سب کے سر ضرور چیک کیے جاتے ہیں۔ بہرحال یہ جان کے اور بھی حیرت ہوئی کہ واقعی ایسی سروس بھی یہاں موجود ہے۔ جہاں سر صاف کر کے نرس کو چیک کروایا جاتا ہے کہ اب سب کلیر ہے اور اس ایک سیشن کی فیس فقط سو ڈالر۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہ ڈانٹ، نہ مار، نہ بے عزتی اور نہ شرمندہ کرنے والی سزائیں تو اتنے شاہانہ اور آسان ماحول میں بچے کیسے پڑھیں اور کیسے تمیز سیکھیں۔ سچ کہوں تو دیس دیس سے آکے یہاں آباد ہوے رنگ برنگے لوگ ہیں اور پھر مالی اور معاشی طور پہ سخت جد و جہد کرتے مصروف ماں باپ جن سے بہت زیادہ تربیت کی توقع نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ زیادہ تر لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ ایسے میں ٹیچر اپنا کام تو کر دیتے ہیں لیکن پڑھائی کسی بچے پہ زور زبردستی سے مسلط نہیں کی جاتی۔جو جس سبجکٹ میں اچھا ہے اور پڑھ رہا ہے اس کی ہر حالت میں حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ صورت حال بہت بگڑی ہو تو والدین کو بلا کے بات چیت کی جاتی ہے، آگاہ کیا جاتا ہے اور مناسب مشورے دیے جاتے ہیں۔ بچوں کو اچھی باتوں پہ پوائنٹس، اسٹکروں اور چھوٹے موٹے ریوارڈس کے ذریعے اچھے رویوں کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ چھوٹی کلاسوں میں سزا کی ایک مثال ہے ”ہیپی چیئر“ اور ”سیڈ چیئر“ ہیپی چیئر خوشی اور حوصلہ افزائی کی علامت ہے، اب غلط بات کرنے والا بچہ اداس کرسی پہ بیٹھ کر ہی اتنا افسردہ ہو جاتا ہے کہ اس سے بچنے کے لئے اپنی اصلاح کر لیتا ہے۔

سب سے کڑی سزا ڈیٹینشن ہے یعنی بریک میں اکیلے کلاس میں بیٹھنا پڑے اور کھیلنے نہیں دیا جائے یا اس میں کوئی کام دے دیا جائے۔ ایک اسکول ٹرپ پہ جانا ہوا، بچوں کے گروپس بنا کر والنیٹر مقرر کر دیے گئے، جو بچہ بے حد شریر تھا ٹیچر نے اس کا ہاتھ خود پکڑا اور کہا ”آئی لو یو سو مچ“ تو تم میرے ساتھ رہو گے۔ بچہ بھی خوشی خوشی چل پڑا اور ہم بھی اس مثبت رویے پہ مسکرا دیے کہ ہم ہوتے تو یقینا کوشش کرتے کہ شرارتی بچے کو کوئی اور سنبھال لے۔بات دراصل ہے تربیت اور برداشت کی۔ بہت ابتدائی عمر سے ہم بڑے ہی وہ رویے اور اصول طے کرتے ہیں جن کے ذریعے بچوں کی تربیت کی جاے گی۔ اگر شروع ہی سے چیخ پکار، اور مار پیٹ اپنائی جاے گی تو بچے بھی اسی انداز اور زبان کے عادی ہوں گے اگر چھوٹی موٹی سزاؤں اور لہجے کی سختی سے سکھایا جاے گا تو وہ اسی کو حرف آخر سمجھیں گے لیکن بد قسمتی سے یہ باتیں ہمارے معاشرے میں کوئی نہیں سکھاتا نہ والدین کو اور نہ اساتذہ کو نتیجتاً بچے بھی اس پہلو سے نا آشنا رہتے ہیں اور یہ رویے نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ان نازک آبگینوں کی ذمہ داری ہمیں سونپی گئی ہے، ہم بحثیت والدین یا ٹیچر وہ کاریگر ہیں جو جس طرح چاہیں انہیں سنوار دیں بس ہم سب کو تھوڑا سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ ہم سب

 

یہ بھی دیکھیں

اسرائیل دنیا کی ہمدردیاں کھو چکا ہے: امریکی عہدیدار

واشنگٹن:امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مارک وارنر نے کہا کہ یہ …