جمعہ , 19 اپریل 2024

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے زینب الرٹ بل کی منظوری دے دی

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے متفقہ طور پر ’زینب الرٹ ریساپنس اینڈ ریکوری بلز، 2020‘ کو منظور کرلیا۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ بل کا دائرہ کار اس سے قبل اسلام آباد تک محدود تھا جسے پورے ملک تک بڑھا دیا گیا ہے مزید کہ یہ اس کے تحت لاپتہ بچوں سے متعلق کیسز کا 3 ماہ میں فیصلہ کرنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔بل کے تحت اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شکایت موصول ہونے کے بعد فوری طور پر فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کا پابند ہوگا اور اگر ایسا نہ کیا تو اسے 2 سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ اور اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم میں ہوا جسے معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر انِ کیمرہ رکھا گیا۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا پیش کردہ یہ ایک انتظامی بل ہے جو لاپتہ بچوں کی بازیابی اور مدد سے متعلق ہے۔اس بل کا نام 9 سالہ زینب انصاری کے نام سے منسوب کیا گیا جسے قصور میں 2018 میں ریپ کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔بل میں تجویز دی گئی ہے کہ بچوں کے ریپ اور اغوا کے کیسز سے نمٹنے کے لیے ایک اتھارٹی قائم کی جائے گی۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بل منظور کرتے ہوئے اس میں سزائے موت شامل کردی تھی جس کے بعد مزید غور کے لیے اسے سینیٹ بھجوادیا گیا تھا جہاں اراکین قائمہ کمیٹی نے بل کا دائرہ کار پورے ملک تک بڑھانے کی تجویز دی۔تاہم پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر قرۃالعین مری نے کمیٹی کے ہر اجلاس میں اس کی مخالفت کر تے ہوئے کہا کہ یہ بل وفاقی دارالحکومت تک محدود رہنا چاہیئے اور صوبوں کو اپنے بل خود منظور کرنے چاہیے ورنہ یہ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی ہوگی۔اس ضمن میں کمیٹی چیئرمین سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ سینیٹر قرۃالعین مری نے پیر کے روز اجلاس میں شرکت نہیں کی اسلیے بل متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

مصطفیٰ کھوکھر کا مزید کہنا تھا کہ ’وزارت انسانی حقوق کی رائے کے بعد وزارت قانون اور آزادانہ قانونی ماہرین نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ بل کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع ہونا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق زینب الرٹ، ریسپانس اینڈ ریکوری اتھارٹی کے ڈائریکٹرجنرل کے لیے درخواستیں وصول کرے گی جن کے نام وزیراعظم کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔سینیٹر کا کہنا تھا کہ لاپتہ بچوں سے متعلق زیادہ تر ایف آئی آرز تاخیر کا شکار ہوجاتی ہیں اور پولیس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ایف آئی آر میں کونسی دفعات لگائی جائیں گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حالانکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بل میں سزائے موت شامل کی تھی لیکن سینیٹ کمیٹی نے بل کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے سزائے موت خارج کردی اور پاکستان پینل کوڈ کی بھی تمام دفعات شامل کی گئیں۔انہوں نے بتایا کہ اب یہ بل سینیٹ کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور ایوان بالا سے منظوری کے بعد اسے منظوری کے لیے قومی اسمبلی بھیجا جائے گا۔

زینب الرٹ بل ریپ اور قتل کا نشانہ بننے والی قصور کی کمسن زینب انصاری کی لاش کے ملنے کے ٹھیک 2 سال بعد رواں برس 10 جنوری کو قومی اسمبلی نے زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔مذکورہ بل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے جون 2019 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔منظور کردہ بل کے مطابق ‘بچوں کے خلاف جرائم پر عمر قید، کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال سزا دی جاسکے گی جبکہ 10 لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا’۔علاوہ ازیں لاپتہ بچوں کی رپورٹ کے لیے ہیلپ لائن قائم کی جائے گی اور 18 سال سے کم عمر بچوں کا اغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے اور گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لیے زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایجنسی بھی قائم کی جائے گی۔بل میں کہا گیا تھا کہ ‘جو افسر بچے کے خلاف جرائم پر دو گھنٹے میں ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی’۔بل کی منظوری کے وقت کہا گیا تھا کہ قانون صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاگو ہوگا تاہم ا سینیٹ قائمہ کمیٹی نے اس کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …