جمعہ , 19 اپریل 2024

انٹرنیٹ کی معطلی میں انڈیا پہلے نمبر پر

مارکوس لیما بالائی منزل سے ایتھوپیا کے وسیع و عریض شہر ادیس ابابا کا ایک خوبصورت نظارا کر سکتے ہیں۔ٹیکنالوجی کمپنی ’آئس ایڈیس‘ کے بانی کی حیثیت سے وہ اکثر ایسے لوگو ں کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں یہ اس کے کام کی ایسی جگہ ہے جس پر عموماً دنیا کے اور بھی بڑے تاجر نگاہیں گاڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ ان کے خوابوں کا بھی مرکز ہے۔لیکن جب انٹرنیٹ سروس معطل ہو جاتی ہیں تو پھر ہر چیز وہیں رک جاتی ہے۔ڈیجیٹل حقوق سے متعلق کام کرنے والے گروپ ’ایکسِس ناؤ‘ نے بی بی سی کے ساتھ جو ڈیٹا شیئر کیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گذشتہ برس 33 ممالک میں دو سو سے بھی زائد دفعہ انٹرنیٹ کی فراہمی جان بوجھ کر معطل کی گئی۔ان ممالک کی فہرست میں برطانیہ بھی شامل ہے جہاں ایک بار ایسا ہو چکا ہے۔ .اپریل 2019 میں برطانوی ٹریفک پولیس نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے کارکنان کے احتجاج کے دوران لندن ٹیوب نیٹ ورک پر وائی فائی کی فراہمی کو معطل کر دیا تھا۔

2019 میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کی تفصیلاتدنیا میں کئی ممالک میں 65 ایسے احتجاج ہیں جن کے دوران انٹرنیٹ کی سروسز کو معطل کیا گیا۔یہ معطلی بارہ دفعہ انتخابات کے دوران ہوا۔انٹرنیٹ کی یہ معطلی زیادہ تر انڈیا میں ہوئی ہے۔انٹرنیٹ سروسز کی سب سے طویل معطلی سنٹرل افریقی ملک چاڈ میں ہوئی، جہاں یہ سروسز 15 ماہ تک معطل رکھی گئی تھیں۔مارکوس لیما کے مطابق جب انٹرنیٹ کی فراہمی معطل ہوئی تو ادیس ابابا میں کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔اس کے بغیر تو کوئی نہیں آسکتا یا جب وہ آتے ہیں تو وہ زیادہ کچھ کہہ نہیں پاتے کیونکہ انٹرنیٹ کے بغیر وہ کر کیا سکتے ہیں؟ان کا کہنا ہے کہ ’انٹرنیٹ کی معطلی سے ہم سوفٹ ویئر ڈویلپمنٹ کا معاہدہ وقت پر پورا نہیں کر سکے جس کی وہ سے وہ منسوخ ہو گیا۔‘’ہمیں ایسی صورتحال کا بھی سامنا رہا جب دنیا بھر میں ہمارے صارفین یہ سوچ رہے تھے کہ ہم انھیں نظر انداز کر رہے ہیں، لیکن ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔‘مارکوس کے مطابق موٹربائیک ڈرائیورز کھانا پہنچانے کے بجائے محض انتظار کرتے ہی رہ گئے۔ انٹرنیٹ کی معطلی سے کوئی آن لائن یا کسی ایپ پر کھانے کا آرڈر بھی نہیں دے سکتا۔انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا براہ راست اثر کاروبار زندگی اور عوام پر پڑتا ہے۔

ویب کی معطلی

یہ صرف ایتھوپیا کی کہانی نہیں ہے اور اس کے اثرات محض معیشت پر بھی نہیں ہیں۔ ایکسِس ناؤ کی تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ کی یہ معطلی دنیا بھی میں کروڑوں لوگوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔اس سے حکومتی حکام کو انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والی کمپنیوں کو مختلف ویب سائٹس اور محضوص لنکس بلاک کرنے کا حکم دینے کی آزادی مل جاتی ہے۔انسانی حقوق سے متعلق سرگرم گروپس اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ اس طرح کے ظالمانہ اقدامات دنیا بھر میں حکومتوں کے پاس ایک ہتھیار بن جاتے ہے۔حکومتیں کیسے انٹرنیٹ سروس کو معطل کرتی ہیں؟tروس نے انٹرنیٹ کے بغیر رہنے کا ’کامیاب تجربہ‘ کیا ہے۔.بی بی سی نے نئے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق انٹرنیٹ کی معطلی کا زیادہ تعلق احتجاج کے ساتھ جڑتا جا رہا ہے۔حکومتوں کا اکثر موقف یہی ہوتا ہے کہ اس طرح کی معطلی سے مفاد عامہ کا تحفظ اور جعلی خبروں کے پھیلاؤ میں مدد ملتی ہے۔لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات جہاں آن لائن معلومات کے بہاؤ کو روک دیتے ہیں وہیں کسی بھی ممکنہ اختلاف رائے کو آن لائن سامنے آنے سے روکا جا سکے۔

سنہ 2016 میں اقوام متحدہ نے انٹرنیٹ تک رسائی کو انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کیا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اسے پائیدار ترقی کے اہداف میں بھی شامل کیا ہے۔تاہم دنیا کے تمام رہنما اس خیال سے زیادہ متفق نظر نہیں آتے۔اگست 2019 میں ایتھوپیا کے وزیر اعظم ایبی احمد نے کہا کہ انٹرنیٹ ’پانی یا ہوا‘ نہیں ہے اور یہ کہ انٹرنیٹ کی معطلی قومی استحکام کے حصول کا اہم زریعہ رہے گی۔مارکوس لیما اس سوچ پر بہت خفا ہیں۔ان کے مطابق حکومت انٹرنیٹ کو اتنا اہم نہیں سمجھتی۔ میرے خیال میں وہ انٹرنیٹ کو بس سوشل میڈیا کے طور پر ہی دیکھ رہے ہیں۔ حکمران اس کے معاشی پہلو کو نہیں دیکھ رہے اور وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انٹرنیٹ کیسے معیشت پر اثرانداز ہو رہا ہے۔انڈیا انٹرنیٹ معطل کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ .

سنہ 2019 کے اعدادوشمار کے مطابق انڈیا نے گذشتہ برس سب سے زیادہ دفعہ انٹرنیٹ سروس معطل کی ہے۔دنیا کے مختلف ممالک میں 121 بار موبائل ڈیٹا اور براڈ بینڈ سروسز بند کی گئیں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 67 فیصد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دیکھنے میں آئیں۔سوڈان اور عراق میں جب انٹرنیٹ سروسز معطل کیے جانے سے مظاہرین کو بغیر کوریج کے ہی احتجاج جاری رکھنا پڑا۔ہر واقعے کے اثرات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کتنے بڑے پیمانے پر معطلی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر مقامی پابندی سے لے کر قومی سطح پر ہر قسم کے انٹرنیٹ سروس کی معطلی سے ہے۔

مخصوص مواد کی سینسرشپ کا جائزہ لینا ایک مشکل کام ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی حکومت ڈیٹا سروسز کی فراہمی کو سست رو کر دیتی ہیں۔ بظاہر لوگ جدید اور تیز ترین 4G موبائل انٹرنیٹ سروسز استعمال کر رہے ہوتے ہیں لیکن اسے سست کر کے 1990s کے زمانے کے 2G کے برابر لا کھڑا کیا جاتا ہے جس سے ویڈیو اور لائیو سٹریم مشکل کام بن کر رہ جاتا ہے۔ ".یہ مئی 2019 کا واقعہ ہے، جب تاجکستان کے صدر نے تسلیم کیا کہ سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر مخصوص مواد کی سینسرشپ کی گئی، جس میں فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام شام ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ یہ دہشتگردی کا کارروائیوں کے لیے استعمال ہو سکتے تھے۔روس اور ایران کی طرح کے کچھ ممالک اس وقت ویب سے مزید مواد کو بلاک کرنے کی غرض سے انٹرنیٹ کے اپنے ورژن متعارف کرانے کا تجربہ کر رہے ہیں۔ڈیجیٹل گروپ ایکسِس ناؤ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ بہت سے ممالک اب ایک دوسرے سے یہ سیکھ رہے ہیں اور ناقدین کا منہ بند کرنے کے لیے انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن جیسے نیوکلیر آپشن کو لانے پر غور کر رہے ہیں یا دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں کو چھپانا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہو سکتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

ترک صدر اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیدیا

انقرہ:ترک صدر رجب طیب اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیا ہے۔ترکی …