جمعہ , 19 اپریل 2024

برطانیہ، کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں میں اضافہ، یورپ میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے

لندن: کرونا وائرس نے 30 سے زیادہ ملکوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے اوریورپ میں بھی اپنے پنجے گاڑ رہا ہے، برطانیہ میں اس سے متاثرہ نئے مریض سامنے آرہے ہیں، اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ اگربرطانیہ میں اس وبا نے شدت اختیار کی تو حکومت اس کی روک تھام کیلئے کیا کر رہی ہے؟۔ اور کیا این ایچ ایس اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔ امید یہی ہے کہ اس وباکو محدود کردیا جائے گا جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ برطانیہ ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے جبکہ وزرا اور ہیلتھ حکام برطانیہ میں اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حکام اس سے متاثرہ افراد کا فوری طورپر پتہ چلانے، اسے قرنطینہ میں منتقل کرنے اور اس سے ملنے جلنے والوں کا پتہ چلانے کیلئے سرگرم ہیں تاکہ دوسرے اس سے متاثر نہ ہوسکیں۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی 9 ریجنل ٹیمیں اس کام میں مصروف ہیں۔ خود مختار بنائی جانے والی انتظامیہ نے اپنے طورپر انتظامات کئے ہیں،ا ب تک اس کی کارکردگی اچھی رہی ہے، اب تک برطانیہ میں کرونا وائرس کے 15

کیس سامنے آچکے ہیں لیکن یہ سب بیرون ملک اس وبا کا شکار ہوئے اور برطانیہ میں یہ مرض کسی کو نہیں لگا لیکن اگر کسی کویہ مرض لگ بھی گیا تو اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ اس کی روک تھام کے انتظامات ناکام ہوگئے، اگر حکام اس کو پھیلانے والوں کا پتہ چلانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کوپھیلنے سے روکنے کے امکانات روشن ہیں۔ تاہم تشویش کی بات یہ ہے مزید ممالک، خاص طورپر ایشیائی ممالک، جہاں سے لوگوں کا برطانیہ آنا جانا معمول ہے، اس کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر اس کو محدود رکھنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو کیا ہوگا، اس مرض کو محدود رکھنے کی کوششوں کو جیت یا ہار کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہئے، اگر یہ ناکام ہوگئیں تو اس وقت تک برطانیہ کا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوچکا ہوگا، سائنسدان اس کی ویکسین کی تیاری کے قریب تک پہنچ چکے ہوں گے اور اگر وائرس کا سلسلہ موسم بہار یا موسم گرما تک جاری رہا تو معتدل موسم سے مدد ملے گی، کیونکہ اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ یہ وائرس موسم کی شدت میں نہیں پھیل سکے گا، تاہم دوسرے ملکوں کی مثالوں سے ایسا معلوم نہیں ہوتا، موسم گرما تک اس وبا کو روکنے کی صورت میں یہ فائدہ بھی ہوگا کہ این ایچ ایس موسم سرما کے دبائو سے نکل چکاہوگا جبکہ فی الوقت ان دنوں یہ کئی نسلوں کے بعد سامنے آنے والے سب سے مشکل ترین موسم سرما کے درمیان میں ہے۔

این ایچ ایس نے اس مرض کو پھیلنے سے روکنے کیلئے تفصیلی منصوبہ مرتب کیا ہے، کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی سانس کی بیماری یا تکلیف کے علاج کیلئے 5 اسپیشلسٹ ہسپتال موجود ہیں، اس کے علاوہ 20 سے زیادہ وبائی امراض کے ریجنل یونٹ ہیں جو کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی صورت میں انھیں لینے کیلئے تیار ہیں۔ تمام ہسپتالوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر اس وائرس کا متاثرہ کوئی مریض وہاں لایا جائے تو اس کیلئے قرنطینہ کی سہولت مہیا کی جائے، فی الوقت چونکہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے، اس لئے ہسپتال اس کی علامات کو کم یا ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ یونٹس میں ای سی ایم او کے نام سے معروف خصوصی آلات بھی موجود ہیں جہاں شدید بیمار ایسے مریضوں کو رکھا جائے گا جن کے پھیپھڑے ناکارہ ہوچکے ہوں، جہاں تک ویکسین کا تعلق ہے تو ریسرچرز یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملیریا یا ایچ آئی وی کے مریضوں کیلئے استعمال کی جانے والی دوائیں کرونا کے مریضوں کیلئے بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

برطانیہ میں بڑے پیمانے پر کرونا وائرس پھیل جانے اور اس کے وبائی شکل اختیار کرجانے کی صورت میں ہسپتال معمول کے علاج کا سلسلہ بند کر کے کرونا کے مریضوں کا علاج کرنا شروع کردیں گے۔ اس بات کا بھی تجزیہ کیا جائے گا کہ کس مریض کو دوسروں سے الگ تھلگ ہو کر اپنے مکان میں ہی رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں میں بیماری کی شدت بہت معمولی ہوتی ہے، پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے کرونا کے وسیع پیمانے پر پھیلائو کی نگرانی کے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ فی الوقت 8ہسپتال اور 100جی پی سرجریز فلو کی طرح کی علامات اور سانس کے مریضوں کے ٹیسٹ کی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔

شہری ہنگامی ایکٹ کے تحت حکومت کو عوام کے تحفظ کیلئے اسکول اور پبلک ٹرانسپورٹ بند کرنے اور لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کرونا قسم کے امراض کو پھیلنے سے روکنے میں موثر ثابت نہیں ہوتے۔ موجودہ صورت حال میں اسکول بند کئے جانے سے امتحانات میں خلل پڑے گا جس کی وجہ سے والدین کو اضافی کام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا، یہی وجہ ہے وزرا اور ہیلتھ حکام اسکول بند نہ کرنے پر زور دے رہے ہیں، عوام کے تحفظ اور اقتصادی اور سماجی اثرات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ وائرس بیشتر مریضوں میں بہت ہی معمولی ثابت ہوا ہے تاہم معمر افراد اور دیگر بیماریوں میں مبتلا کو زیادہ خطرہ ہے، یہی صورت حال فلو کیلئے بھی ہے، جس سے ہر سال سیکڑوں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ مرض کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کی صورت میں حکومت کی کوبرا کمیٹی اور انگلینڈ اور ویلز کے 43ریسائلنس فورمز کے مربوط نظام کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ اس میں پبلک ہیلتھ انگلینڈ، این ایچ ایس، لوکل کونسلز اور ایمرجنسی سروسز شامل ہیں، شمالی آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ بھی اگرچہ انگلینڈ کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں لیکن ان کے اپنے انتظامات بھی موجود ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

ترک صدر اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیدیا

انقرہ:ترک صدر رجب طیب اردوغان نے نیتن یاہو کو غزہ کا قصائی قرار دیا ہے۔ترکی …