ہفتہ , 20 اپریل 2024

لاک ڈاؤن کس بلا کا نام ہے، کرفیو کہتے کسے ہیں!!!!!!

تحریر:محمد اکرم چوہدری

کرونا وائرس پنجاب پہنچ گیا ہے۔ ملک بھر میں کرونا سے متاثرین کی تعداد بڑھتے ہوئے پچاس سے تجاوز کر چکی ہے۔ مریضوں کی تعداد میں اضافہ تیزی سے نہ ہونا خوش آئند ہے البتہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ پریشان کن ہے۔ کرونا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تیزی سے پھیلتے وائرس نے معمول کی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں ابھی تک حالات قابو میں ہیں لیکن مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہمیں خبردار کر رہا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو ان غیر معمولی حالات میں سمجھداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص حکومتی وزراء کے لیے لازم ہے کہ جب تک کرونا وائرس کا خطرہ ٹل نہیں جاتا ٹاک شوز میں شرکت کے بجائے اپنے دفاتر میں رہیں اور تمام معاملات کی قریب سے نگرانی کریں۔ انتظامیہ کے ساتھ قریبی رابطے قائم کریں۔ اچھی ہم آہنگی رکھیں، تال میل کے ساتھ کام کریں۔ اس عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور آلات کی کمی ہے اس کمی کو ہم بہتر حکمت عملی اور تدبیر سے دور کر سکتے ہیں۔ تمام افسران دلجمعی سے کام کریں، حقائق پر مبنی رپورٹس تیار کریں اور وزراء مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، آگاہی مہم میں تیزی لائیں۔ عوام کو حوصلہ اور درست معلومات فراہم کریں۔ ایسے حالات میں افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں افواہوں کا توڑ بہتر اور بروقت معلومات سے ہی افراتفری کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔

پنجاب میں کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد میو ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ اس کیس کے بعد صوبے میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی گئی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق سندھ میں پینتیس بلوچستان میں دس، اسلام آباد میں چار، گلگت بلتستان میں تین اور لاہور میں ایک مریض ہے۔ ایک سو چوالیس کے نافذ ہونے کے بعد صوبے بھر میں تمام باغات، چڑیا گھر اور تفریحی مقامات کو بھی بند کر دیا گیا ہے، گھروں میں شادی کی تقریبات کی اجازت ہے۔ چار یا اس سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے یہ تمام اقدامات اور فیصلے وقت کی ضرورت ہیں۔ یہ وائرس اتنا خطرناک ہے کہ عالمی ادارہ صحت بھی اب تک اسے قابو کرنے یا اس کا توڑ نکالنے میں ناکام رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک دنیا میں لاک ڈاون ہو چکا ہے۔ ملکوں کے ملک بند ہوئے پڑے ہیں۔ بڑی بڑی معیشتوں کا جنازہ نکل رہا ہے۔ جنہیں اپنی طاقت کا زعم تھا وہ بھی دبکے ہوئے ہیں جنہیں اپنی دولت کا نشہ تھا وہ بھی منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ وہ دنیا جسے کشمیر میں بھارت کے کرفیو اور لاک ڈاؤن پر عملی قدم اٹھانے کی توفیق نہ ہو سکی آج خود انہی حالات سے گذر رہی ہے جن کا سامنا کشمیری پانچ اگست دو ہزار انیس سے کر رہے ہیں۔ کشمیریوں نے احتجاج کیا، آواز بلند کی، تشدد برداشت کیا، بھارت ظلم و بربریت کے ریکارڈ قائم کرتا رہا لیکن بڑی طاقتیں مذہبی مخالفت اور مالی مفادات کی وجہ سے خاموش رہیں آج سب طاقتور ایک ہی صف میں کھڑے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ یقیناً دنیا اب بھی خاموش رہے گی، دنیا کرونا وائرس سے نجات کے بعد بھی مصلحت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش رہے گی لیکن اس تکلیف کے دوران شاید عالمی طاقتوں اور مضبوط معیشتوں کے زعم میں مبتلا عالمی امن کے نام نہاد دعویداروں کو یہ اندازہ ضرور ہو جائے گا کہ لاک ڈاؤن کس بلا کا نام ہوتا ہے، کرفیو کہتے کسے ہیں۔ کشمیری گذشتہ برس پانچ اگست سے کرفیو اور لاک ڈاؤن کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ غیروں سے کیا گلہ ہے اس دوران تو اسلامی بھائیوں نے بھی ان مظلوموں کا ساتھ نہیں دیا۔ کوئی بھارتی، کشمیری اور پاکستانی مسلمانوں کے قاتل نریندرا مودی کو بڑے بڑے اعزازات دے رہا ہے تو کسی کو اپنی بڑی بڑی سرمایہ کاری کا غم کھائے جا رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمان بہنوں کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں، معصوم بچوں کو کلمہ پڑھنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ وہاں رابطے اور معلومات کے ذرائع بند ہیں۔ نریندرا مودی کی تعصب پسند حکومت کشمیریوں کو لا الہ اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے، اپنا حق رائے دہی مانگنے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے مطالبے کی سزا دے رہا ہے۔ جب آپ کے اردگرد ظلم ہو رہا ہو اور آپ خاموش رہیں یا مظلوم کا ساتھ دیں تو قانون قدرت کہیں بھی کسی بھی وقت حرکت میں آ سکتا ہے۔ اللہ ہمیں ظلم پر خاموش رہنے کے جرم سے محفوظ فرمائے، خالق کائنات ہمیں ظالم کا ساتھ دینے کے جرم سے محفوظ فرمائے۔ یااللہ ہمیں اس جرم سے بچا لے، یااللہ ہمیں شرمندگی سے بچا لے۔ یااللہ ہم پر رحم فرما، یااللہ دنیا کو اس مصیبت سے نجات عطاء فرما۔ آمین

بشکریہ نوائے وقت

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …