جمعہ , 19 اپریل 2024

افریقہ میں صحرائے اعظم کو روکنے والی ’دیوارِ سبزہ‘

گھانا کے شمال ترین حصے پیگا میں آپ کو احتیاط برتنی ہوتی ہے کہ آپ کے قدم کہاں پڑ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ گھومتے گھومتے اس ریتیلے سرحدی شہر میں کسی ایسی جگہ پہنچ جائیں جہاں آپ کا سامنا دانت نکالے ہوئے مگرمچھ سے ہو جائے جو یہاں کا رہائشی ہے۔یہاں کے مقامی باشندوں نے رینگنے والے ان طاقتور جانوروں کے ساتھ خطرناک حد تک قریب رہنا سیکھ لیا ہے۔ یہ جانور قرب و جوار کے ’مقدس‘ تالاب میں رہتے ہیں۔ مقامی دیومالائی داستانوں کے مطابق پیگا کے پہلے سربراہ کو ایک شکار کے دوران ایک مگرمچھ نے بچایا تھا جس کے بعد سے انھوں نے یہ فرمان جاری کر دیا تھا کہ کوئی بھی اس جانور کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔آج بھی مقامی لوگ مگرمچھ کا خیال رکھتے ہیں، انھیں کھلاتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ خواتین بظاہر بے خوف تالاب میں کپڑے دھوتی ہیں جبکہ بعض بہادر لوگ ان کے ساتھ تالاب میں تیرتے بھی ہیں۔

’دوست‘ مگرمچھ کے وعدے پر سیاح وہاں آتے ہیں اور انھیں مگرمچھوں کے ساتھ اور انھیں چھوتے ہوئے تصاویر لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اگر آپ پیچھے سے جائيں تو ان کے پاس جانا بظاہر محفوظ ہے۔لیکن پیگا اور اس کے مگرمچھ کو آس پاس کی زمین سے تجاوزات کا سامنا ہے۔ یہ افریقہ بھر میں پھیلے ہوئے نیم بنجر سحل نامی علاقے کے جنوبی کنارے پر ہے اور پیگا کے آس پاس کا علاقہ نازک ریتیلی مٹی سے غیر محفوظ انداز میں وہاں کے لینڈ سکیپ سے لپٹا ہوا ہے۔مڑے ہوئے درخت اور روکھی جھاڑیوں نے اس خشک سالی سے نبرد آزما حصے میں جینا سیکھ لیا ہے اور وہ مٹی کو پکڑ کر رکھنے میں مددگار ہیں۔

لیکن پیگا اور اس کے مضافات کے گاؤں کی آبادی میں اضافے کے نتیجے میں کئی درختوں کو صاف کیا گیا ہے تاکہ ان سے جلانے اور تعمیرات کے لیے لکڑی حاصل ہو اور کھیتی کے لیے بھی راستہ ہموار ہو۔ان درختوں کے بغیر مٹی کو ایک ساتھ باندھے رکھنا مشکل ہوگا۔ تیز ہوائیں اور بارش اسے بہا کر لے جائيں گی اور فصل یا جنگلی سبزیوں کے جڑ پکڑنے کے لیے کوئی مٹی نہیں ہوگی۔ یہ خطہ رفتہ رفتہ ریگستان میں بدل رہا ہے۔پیگا میں مقامی ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم جولیس اواریگیا نے کہا: ’ہمارے ماحول کو بڑے پیمانے پر جنگل کی کٹائی سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس کے ہماری آنے والی نسلوں پر گہرے اثرات پڑیں گے۔ اس لیے ہمارے پاس جو بچا ہے اسے بچانے کی ضرورت ہے۔‘اواریگیا اب ریگستان کو دور رکھنے کے لیے ایک دیوار بنانے میں تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن یہ اینٹ، پتھر اور کنکریٹ کی کوئی معمولی دیوار نہیں ہے۔ بلکہ یہ تنے، ٹہنیوں اور پتوں کی ایک زندہ دیوار یا سبز آڑ ہے تاکہ اس تقریباً بے جان ریگستان کو تھامے رکھے۔جس دن ہم نے ان سے بات کی اس سے قبل وہ اپنی ٹیم کے ارکان کو ٹرکوں میں پودے بھر کر پاس کے تین گاؤں روانہ کر چکے تھے تاکہ مقامی لوگوں کے ساتھ گروہ بنا کر نئے پودے لگائے جا سکیں۔ آج وہ اکیسیا یعنی کیکر اور ببول کے ساتھ مہوگنی، نیم اور سب سے اہم افریقی درخت بئوباب کے درخت لگا رہے ہیں۔پوری طرح سے جوان بئوباب کے درخت بہت قابل دید ہوتے ہیں۔ ان کے چٹان کے جیسے موٹے تنے اور ان پر سے آسمان کی جانب بڑھتی ہوئی تنومند شاخیں کسی دوسری ہی دنیا کی چیز لگتی ہیں۔ بئوباب جو کہ درحقیقت رسیلے درخت ہوتے ہیں انھوں نے افریقی سوانا کے سخت اور سوکھے ماحول کو اچھی طرح اپنا لیا ہے اور وہ دو ہزار سال سے زیادہ عرصے تک جی سکتے ہیں۔

جب یہ پودے 200 سال کی عمر میں اپنے عنفوان شباب پر ہوتے ہیں تو ان میں پھل آنے لگتے ہیں جو کہ ہرے سخت چھلکے والے ہوتے ہیں اور جب وہ دھوپ میں پکنے لگتے ہیں تو اپنی شاخوں پر مزید سخت ہو جاتے ہیں اس کے اوپر کی جلد بھوری ہو جاتی ہے اور ان کے اندر سے مکمل خشک سفید گودے نکلتے ہیں جو کہ تیز ترش ذائقے لیے ہوتے ہیں۔اس طرح جو پودے اواریگیا کی ٹیم لگا رہی ہے وہ مستقبل کے لیے ایک سرمایہ کاری ہے۔ہر چند کہ اس کے پھل اشتہا انگیز نہیں ہوتے لیکن پیگا والے اس پھل کو بہت قیمتی سمجھتے ہیں۔ روایتی طور پر سوکھے ہوئے پکے پھلوں کو مقامی خواتین جمع کرتیں اور ان سے چٹنی یا دلیا بناتیں یا پھر ایک قسم کی ٹافی بھی بنا لیتی ہیں۔لیکن اب یہ کام مزید منظم ہو رہا ہے۔ دسمبر سے اپریل کے درمیان گاؤں کی خواتین ان پھلوں کو یکجا کرنے کے لیے نکلتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ جو پھل لاتی ہیں انھیں گاؤں میں چھانٹا جاتا ہے، توڑا جاتا ہے اور اس کے گودے کو نکال کر ہاون دستے یا مشین کے ذریعے پیس لیا جاتا ہے۔اس سے نکلنے والے پاؤڈر کو پیک کر کے یورپ بھیجا جاتا ہے جہاں انھیں سموتھیز، جوس، آئس کریم اور ہیلتھ فوڈ میں ملایا جاتا ہے۔ یہ ساڑھے تین ارب امریکی ڈالر کے بئوباب کے عالمی بازار کا حصہ ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ آئندہ پانچ سالوں میں یہ بڑھ کر پانچ ارب ڈالر ہو جائے گا۔اس میں وٹامن سی کے ساتھ کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیم اور فولاد بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں اور کوکا کولا، کوسٹکو، انوسینٹ سموتھیز، سوجا جوس اور برطانیہ کی یؤ ویلی جیسی تمام کمپنیوں نے بئوباب کے پھل والی چیزیں بازار میں متعارف کروائی ہیں۔ اس سے ایک ایسے درخت کو نئی قدر ملی ہے جسے گھانا جیسی ملک میں بہت کم قیمت تصور کیا جاتا تھا۔صحت بخش غذا کی ایک برانڈ ادونا کے چیف ایکزیکٹو اینڈریو ہنٹ جو کہ گھانا اور پڑوسی ملک برکینا فاسو میں بیوباب کے چھوٹے کاشتکاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ بیوباب میں بہت صلاحیت ہے۔’یہ افریقہ میں بہت ہی خاص درخت ہے اور اس کی زبردست ثقافتی قیمت ہے۔ بعض مقامات پر اسے مقدس تصور کیا جاتا ہے جہاں ان کے خیال میں ان کے آبا کی روحیں رہتی ہیں۔ لیکن اس کی کوئی قیمت نہیں تھی اور اسے دوسری فصلوں کی خاطر کاٹا جا رہا تھا۔‘

بئوباب کے پھل کے فوائد کو دیکھتے ہوئے اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ درخت جن بنجر علاقوں میں اگتا ہے وہاں کے رہائشی قبائل کو اب اس کی دیکھ بھال کرنے کا صلہ مل رہا ہے۔ادونا کمپنی بیوباب کے پھل کی 38 کلو والی ایک بوری 45 سیدی (گھانا کی کرنسی) جو کہ تقریباً آٹھ ڈالر بنتا ہے، کے عوض خریدتی ہے جس پر وہ مزید چار ڈالر کا پریمئیم بھی ادا کرتے ہیں۔جن گاؤں میں کام کرنے والے افراد کی روزی روٹی اسی درخت سے منسلک ہے، ان کی سالانہ آمدنی 48 ڈالر سے بھی کم ہوتی ہے تو اس لحاظ سے وہاں کام کرنے والی خواتین کے لیے ادونا کی طرف سے ادا کی گئی رقم بہت قیمتی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ادونا نے گذشتہ سال وہاں پانچ ہزار درخت اگانے کے لیے بھی رقم فراہم کی ہے اور توقع ہے کہ اس سال وہ اسے دوگنا کر دیں گے۔اس سکیم کی مدد سے ایک اہم اور بڑے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے جسے ’گریٹ گرین وال‘ یا دیوارِ سبزہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد افریقہ کے گرد درختوں کی مدد سے آٹھ ہزار کلومیٹر طویل دیوار قائم کرنی ہے تاکہ دنیا کے سب سے بڑے صحرا یعنی صحارا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔صحرا عمومی طور پر بدلتے موسموں کے ساتھ ساتھ گھٹتے اور بڑھتے ہیں لیکن صحرائے اعظم کا حجم بارشیں نہ ہونے، اور جنگلات اور مٹی کے کٹاؤ کے باعث بڑھ رہا ہے۔گذشتہ ایک صدی کے دوران صحرائے اعظم کا حجم سالانہ 7600 مربع کلومیٹر کے حساب سے بڑھا ہے اور 1920 سے لے کر اب تک اس کُل حجم دس فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ صحرا کے جنوب میں یہ اضافہ بالخصوص دیکھنے میں آیا ہے جہاں وہ سو سالوں میں پانچ لاکھ 54 ہزار مربع کلومیٹر بڑھ چکا ہے اور اب صحرا کا کل رقبہ 94 لاکھ مربع کلومیٹر ہو چکا ہے۔لیکن یہی معاملہ دنیا کے دیگر حصوں میں دیکھا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ 20 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ صحرا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے صحراؤں کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سرگرم ادارے یو این سی سی ڈی کے سینئیر رکن ابراہیم تھیاؤو نے کہا کہ ’صحراؤں کے حجم میں اضافہ کینسر کی طرح ہوتا ہے، نہ کہ جنگل کی آگ کی طرح۔ اس اضافے سے عالمی طور پر معیشت کو یومیہ 1.3 ارب ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے کیونکہ جو زمین زراعت، جانوروں کی چراگاہوں، سیاحت یا انسانی آبادی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، وہ صحرا میں بدل رہی ہے۔‘

افریقن یونین کی جانب سے سال 2007 میں شروع کیے گئے منصوبے ’گریٹ گرین وال‘ کا مقصد صحرائے اعظم کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رقبے کو قابو میں لانا ہے اور بالآخر واپس دھکیلنا ہے۔یو این سی سی ڈی کے تعاون سے افریقہ کے 20 ممالک کا منصوبہ ہے کہ بحیرہ اوقیانوس سے لے کر بحیرہ احمر تک پھیلے ہوئے افریقہ کے سحل خطے میں درخت اگائے جائیں جو دنیا کی سب سے بڑی ’جیتی جاگتی‘ تعمیر کی شکل اختیار کرے گا۔براعظم افریقہ میں سحل خطہ سینیگال، موریطانیہ، مالی، برکینا فاسو، الجیریا، نائیجر، نائیجریا، کیمرون، وسطی افریقن جمہوریہ، چاڈ، سوڈان، جنوبی سوڈان، اریٹیریا اور ایتھوپیا کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔لیکن درختوں سے بنی یہ تعمیر ایک زبردست سرسبز دیوار جیسی نہیں ہوںگی۔ اب تک آٹھ ارب ڈالر کا سرمایہ لگایا جا چکا ہے جس کا مقصد ہے کہ ان ممالک میں زمینوں کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے اور مٹی کے معیار کو بہتر کیا جائے۔ اس میں زمین کی نگہداشت کے لیے مقامی طریقے ڈھونڈنے کی خاطر مقامی لوگوں کے علم پر بھی انحصار کیا گیا ہے۔برکینا فاسو، مالی اور سینیگال میں کسان زرعی زمین کو بہتر بنانے کے لیے ’زئی‘ نامی ایک روایتی طریقہ استعمال کر رہے ہیں جس کی مدد سے پتھروں سے لکیروں، پٹیوں اور نیم دائروں کی صورت میں ایسے چھوٹے چھوٹے تالاب بنائے جاتے ہیں جو پانی کو سٹور کر سکیں جو خشکی کے موسم میں کارآمد ہوں اور سخت مٹی والی زمین کو تر کرنے میں کام آئیں۔گھانا کے کچھ علاقوں میں رہنے والے لوگ ہاتھی گھاس اگا رہے ہیں جس کی مدد سے مٹی کے کٹاؤ کو روکا جا سکتا ہے جبکہ اس سے ٹوکریاں بھی بُنی جاتی ہیں۔لیکن اس ‘گریٹ گرین وال’ منصوبے کا سب سے اہم جزو درخت ہیں۔ صرف سنیگال میں ہی گذشتہ دس سالوں میں قحط کا مقابلہ کر سکنے والے ایک کروڑ 20 لاکھ درخت لگائے گئے ہیں۔ابراہیم تھیاؤو کہتے ہیں کہ 20 ممالک میں تین لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ جو صحرا میں تبدیل ہو گیا تھا اسے واپس زرخیز بنا دیا گیا ہے۔

’لیکن ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے اور یہ میری زندگی، یا میرے بچوں کی زندگی میں پورا نہیں ہوگا۔ ہمیں اس کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور بہت بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تک ہم صرف برادریوں کی سطح پر چھوٹے پراجیکٹ ہی کر رہے ہیں۔‘یو این ڈی سی سی نے سال 2030 تک اپنا ہدف رکھا ہے کہ وہ افریقہ میں دس لاکھ مربع کلومیٹر زمین کو دوبارہ زرخیز بنا دیں گے۔یہ بہت بڑا ہدف ہے لیکن انھیں امید ہے کہ ایسا کرنے سے سحل کے خطے پر واقع ممالک میں غذا کی قلت نہیں ہوگی اور ساتھ ساتھ وہ ماحولیاتی آلودگی کو نقصان پہنچانے والی کاربن میں بھی کمی کا باعث بن سکے گا۔لیکن اس منصوبے کو اب تک ملی جلی کامیابی ملی ہے اور اس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ سست رو منصوبہ ہے۔ اسی طرح کی کوشش چین کے صحرائے گوبی میں محدود کامیابی کے ساتھ کی گئی تھی۔ واقعتاً اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ گوبی میں ریت کے طوفان کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے ہوں گے۔لیکن یو این ڈی سی سی کو امید ہے کہ بئوباب درخت کی مانگ میں اضافہ اس منصوبے کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ان کسانوں کو یہ کہنا آسان ہے کہ وہ بئوباب کے درخت اگائیں اور ان کی دیکھ بھال کریں لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان کسانوں کی زیادہ ضرورت خود کے لیے کھانا حاصل کرنا اور پیسے کمانا ہے۔لیکن اگر بئوباب اگانے سے ان کسانوں کو رقم ملنے کا ایک ذریعہ میسر ہو جائے تو یہ ان کے لیے بئوباب لگانے کا محرک بن سکتا ہے۔

یو این ڈی سی سی کو امید ہے کہ گریٹ گرین وال منصوبے میں نجی شعبے کو شامل کر کے یہ مقصد حاصل کیا جا سکے گا۔ اسے امید ہے کہ بئوباب جیسی مصنوعات بڑی ملٹی نیشنل غذائی کمپنیوں کو ترغیب دیں گی کہ وہ پیگا اور قریبی دیہات میں بوائی اور کاشت کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔تھیاؤ کہتے ہیں کہ ‘حکومتیں یہ کام اکیلی نہیں کر سکتیں۔ ہمیں نجی شعبے کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا تاکہ انھیں یہ سمجھ آ سکے کہ زمین کی بحالی منافع بخش کام ہے۔’ یو این ڈی سی سی پہلے ہی کئی بڑی غذائی کمپنیوں سے اس حوالے سے مذاکرات کر رہا ہے۔اور صرف بئوباب ہی نہیں بلکہ مورنگا کے درخت کے پتے بھی صحت بخش غذا کے طور پر مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ انڈیا، پاکستان اور افغانستان کے زیریں ہمالیائی بارانی علاقوں کا مقامی درخت مورنگا سحل کے علاقے میں کئی مقامات پر پائے جانے والے حالات میں آسانی سے نشونما پا سکتا ہے۔کاسمیٹکس اور موئسچرائزرز میں استعمال ہونے والی شی چربی بھی اسی خطے میں اگنے والے درختوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ادونا کے اینڈریو ہنٹ کو بھی وہ گھاس کی فصلیں فائدہ مند محسوس ہوتی ہیں جو کہ روایتی طور پر مغربی افریقہ میں اگائی جاتی ہیں، مثلاً فونیو نامی ایک باجرہ جس سے لذیذ ڈشیں بنائی جاتی ہیں اور دوسرے مشہور اناجوں کی جگہ لے سکتی ہیں۔ہنٹ کہتے ہیں کہ ’بئوباب ایک بہت بڑی تصویر کا صرف ایک جزو ہے۔‘

مگر دوسری جانب چند ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں خدشہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اگر ان فصلوں کے لیے وسیع تر طلب پیدا کرنی شروع کر دی تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ ویسے تو یہ ان علاقوں میں قابلِ قدر آمدنی اور سرمایہ کاری لا سکتے ہیں مگر اس سے زمین کے استحصال کا خدشہ ہے یا پھر نباتاتی تنوع کا خاتمہ ہوسکتا ہے جیسے پام آئل کے درخت اب جنوب مشرقی ایشیا، وسطی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز سے منسلک ایک محقق، لنزے سٹرنگر کہتی ہیں کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ ایک ہی قسم کی درخت یا ایک ہی قسم کے پودے اگانے سے ان مسائل میں شدت آ سکتی ہے جو کہ زمین کے صحرا میں تبدیل ہونے کی وجہ ہوتے ہیں۔’ویسے تو زمینیں مقامی سطح پر ہی صحرا میں تبدیل ہوتی ہیں مگر ان فیصلوں کے سیاسی اور معاشی محرکات بہت وسیع پیمانے پر اور ان زمینوں سے نہایت دور ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان خشک زمینوں پر خود موجود نہیں ہوتے، ان کے لیے یہ آسان ہے کہ وہ اس حوالے سے بے خبر رہیں کہ ان کے صارفین کے رویوں کی وجہ سے خشک زمینوں پر کیا بیت رہی ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ایسی حکمتِ عملیاں جو بیشتر فوائد فراہم کرتی ہیں، وہ بھی کارآمد ہوسکتی ہیں۔ پھلدار درختوں مثلاً صحرائی کھجور اگا کر مٹی کو مستحکم کیا جا سکتا ہے اور مقامی لوگوں کے لیے سایہ اور غذا فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کو زمین کے مالکانہ حقوق دینا بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے وہ زمین کی پائیدار انتظام کاری میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل ہوسکیں گے۔سٹرنگر کہتی ہیں کہ ’ہمیں انسان کے بنائے گئے اپنے چند نظام تبدیل کرنے ہوں گے، صحرا کے آگے بڑھنے کا مسئلہ صرف درخت لگانے سے حل نہیں ہوگا۔‘اس کے علاوہ دیگر حمکتِ عملیاں بھی ایسی ہیں جو مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر شمسی توانائی لکڑی کی بطور ایندھن طلب کو کم کر سکتی ہیں جس سے درختوں کے کٹاؤ میں کمی آئے گی۔ مراکش کا شہر ورزازات جو اکثر صحارا کی دوسری جانب صحرائی طوفانوں کی زد میں رہتا ہے، اب سیوریج کے پانی کی صفائی کے لیے شمسی تونائی استعمال کر رہا ہے اور اس پانی سے اردگرد کی زمینوں کو سیراب کیا جا رہا ہے۔برکینا فاسو میں مائیکروبائیولوجسٹ فورفانا برکیسا سفید لوبیا اور کیکر کے درختوں میں مختلف اقسام کے بیکٹیریا اور پھپھوندی شامل کر کے دیکھ رہے ہیں کہ کیا اس سے وہ قحط کا مقابلہ کرنے اور بہتر نشونما کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں۔دوسری جانب پیگا میں کام کرنے والے کسان اپنے فصلوں سے بچنے والے ناقابل کاشت مال کی مدد سے ایسا تارکول بنا رہے ہیں جس کی مدد سے وہ زمین کی زرخیزی میں اضافہ کر سکیں۔وہ خواتین جو امریکہ اور یورپ میں بئوباب برآمد کرنے کے لیے اس کی کاشت کر رہی ہیں، ان کے لیے بھی کافی سماجی اور معاشی فوائد سامنے آئے ہیں۔

کچھ دیہات کو تین پہیوں والی سائیکلیں ملی ہیں جن سے ان کے لیے جھاڑیوں کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے بئوباب کی بوریاں ڈھونا آسان ہو گیا ہے۔ خواتین اپنی برادریوں کے اندر زیادہ خودمختار ہو رہی ہیں اور اپنے اپنے گھرانوں میں فیصلہ سازی میں شامل ہو رہی ہیں۔جولیس اواریگیا کہتے ہیں کہ پہلے خواتین کے لیے کچھ بھی کرنا مشکل ہوتا تھا کیونکہ ان کے پاس پیسے کی کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔’اب وہ خود پیسے کما سکتی ہیں اور وہ اپنے گھر کی سطح پر فیصلے خود لے سکتی ہیں۔’جولیس اواریگیا کے مطابق ایک اور فائدہ یہ ہوا ہے کہ مقامی قبائل کو سمجھ آگئی ہے کہ انھیں اب ناقابل استعمال کاشت یا درختوں کو آگ نہیں لگانی بلکہ انھوں نے درختوں کے تحفظ کے لیے برادری کی سطح پر قوانین بنا لیے ہیں۔زیادہ درختوں اور زرخیز زمین کا مطلب ہے کہ پیگا کے رہائشی افراد اور وہاں کے مگرمچھ ایک دوسرے کے ساتھ مزید کچھ عرصہ ہنسی خوشی رہ سکتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

دنیا کی سب سے کم عمر ذہین بچی

کینٹکی: امریکا کی دو سالہ بچی اپنی اعلیٰ ذہانت ثابت کر کے بلند ذہانت کی …