ہفتہ , 20 اپریل 2024

کیا محمد بن سلمان نومبر تک بادشاہ بن جائیں گے؟

آصف شاہد

2020ء کا آغاز ہوا تو اربوں ڈالر مالیت کے منصوبے، بڑے میوزک اور اسپورٹس ایونٹ، جی20 سربراہ کانفرنس سمیت کئی اشارے ایسے تھے جن سے لگتا تھا یہ سال سعودی عرب کے لیے کامیابیوں کا سال ہے اور سعودی عرب دنیا کے لیے دروازے کھول رہا ہے۔

ماحول اتنا زبردست تھا کہ سعودی ولی عہد کی 2016ء میں کی گئی وہ پیشگوئی درست ثابت ہوتی دکھائی دینے لگی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 2020ء تک سعودی عرب کی معیشت تیل کے بغیر چلنے کے قابل ہوجائے گی۔

لیکن پھر سال کا تیسرا مہینہ ایسے دھچکے لے کر آیا کہ اب سعودی ولی کا خواب نہ صرف بکھرتا دکھائی دیتا ہے بلکہ اقتدار پر ان کی بظاہر مضبوط گرفت بھی ڈھیلی پڑتی دکھائی دیتی ہے۔

سعودی عرب روس کے ساتھ تیل قیمتوں کی جنگ چھیڑ چکا ہے اور اندرونی طور پر ایک بار پھر سعودی شاہی خاندان کے سینئر ارکان کی گرفتاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ سعودی ولی عہد جو صحافی جمال خاشقجی کے قتل، یمن جنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی مدد سے تمام بحرانوں کو ٹال کر آگے بڑھتے دکھائی دے رہے تھے، مگر وہ ایک بار پھر اندرونی اور بیرونی مشکلات میں گِھر چکے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان 2015ء میں اپنے والد کے بادشاہ بننے کے بعد سے سعودی ریاست پر کنٹرول مضبوط بنانے کی جستجو میں مصروف ہیں اور اقتدار کی دوڑ میں شامل دیگر شہزادوں کو عہدوں سے بے دخل کرنے اور ان کی بے توقیری کا سلسلہ بھی شروع کیے ہوئے ہیں۔ محمد بن سلمان نے پہلے نائب ولی عہد بن کر وزارتِ دفاع کا قلمدان سنبھال کر سعودی فوج اور انٹیلی جنس پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، بعد میں ولی عہد محمد بن نائف کو ہٹا کر خود ولی عہد بنے اور یوں شاہی محل کا کنٹرول بھی مکمل طور پر ان کے ہاتھ آگیا۔

سابق ولی عہد محمد بن نائف (بائیں)، جنہیں ہٹا کر محمد بن سلمان (دائیں) کو ولی عہد بنایا گیا
شاہ سلمان کے اقتدار کے 5 سال مکمل ہونے کے بعد اب اطلاعات یہ ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان اس سال نومبر میں سعودی عرب میں ہونے والی جی20 سربراہ کانفرنس سے پہلے بادشاہ بننے کی تیاری میں ہیں۔ اسی کوشش میں شہزادہ محمد بن سلمان نے مارچ کے پہلے ہفتے میں اپنے سگے چچا اور شاہ سلمان کے بھائی احمد بن عبدالعزیز کو گرفتار کروایا، ان کے علاوہ سابق ولی عہد محمد بن نائف کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ دونوں شہزادے شاہی خاندان میں شاہ سلمان کے بعد سینئر ترین ارکان ہیں۔ ان کے علاوہ شہزادہ احمد بن عبدالعزیز کے بیٹے شہزادہ نائف بن احمد بن عبدالعزیز، گرفتار سابق ولی عہد کے سوتیلے بھائی نواف سمیت 20 شہزادوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ شہزادوں کے علاوہ انٹیلی جنس اور فوجی افسران کی گرفتاری کی بھی اطلاعات ہیں تاہم ان کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

شہزادہ احمد بن عبدالعزیز کے بیٹے نائف بن احمد بن عبدالعزیز گرفتار افراد میں سینئر ترین پوزیشن پر ہیں۔ وہ سعودی لینڈ فورسز کی انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی اتھارٹی کے سربراہ ہیں۔ 20 شہزادوں کی گرفتاری کے بعد باقی شاہی خاندان کو پیغام دیا گیا کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کی حمایت میں ٹوئٹر پر پیغامات جاری کریں اور اس کے لیے ‘کلنا سلمان کلنا محمد’ کا ہیش ٹیگ استعمال کریں۔ سعودی عرب میں گرفتاریوں کے موقع پر یہ ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ رہا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے ان گرفتار شہزادوں پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ اقتدار پر قبضے کے لیے امریکا سمیت بیرونی طاقتوں سے رابطے میں تھے۔ سعودی سرکاری ذرائع سے میڈیا کو جو اطلاعات دی گئیں ان کے مطابق شاہ سلمان نے گرفتاریوں کے حکم نامے پر خود دستخط کیے۔ شاہ سلمان جو ڈیمنشیا کے مریض ہیں اور ان کی خرابی صحت کی خبریں عام ہیں شاید اسی لیے ان گرفتاریوں کے بعد مختلف ملکوں کے سفیروں سے ملاقات اور اسناد سفارت وصول کرنے کی تصویریں خصوصی طور پر جاری کی گئیں تاکہ شاہ سلمان کے بارے میں افواہوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

شہزادہ احمد بن عبدالعزیز اور دیگر شہزادوں کی گرفتاری کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سینئر شہزادے جانشینی کی فہرست تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ سعود بن عبدالعزیز کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے احمد بن عبدالعزیز تخت کے مضبوط امیدوار ہیں اور سینئر شاہی ارکان، سیکیورٹی اداروں اور مغربی طاقتوں میں ان کے حامی بھی موجود ہیں۔

احمد بن عبدالعزیز نے 2017ء میں محمد بن سلمان کو ولی عہد بنائے جانے کی مخالفت کی تھی اور وہ سعودی شاہی خاندان کی بیعت کونسل میں محمد بن سلمان کی مخالفت کرنے والے 3 ارکان میں سب سے سینئر ترین رکن ہیں۔ محمد بن نائف کو ولی عہد کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد نظربند رکھا گیا ہے۔

نومبر 2018ء میں احمد بن عبدالعزیز کی برطانیہ سے واپسی پر نقل و حرکت بھی تقریباً محدود کردی گئی تھی اور ان کے بیرونِ ملک جانے پر بھی پابندی تھی۔ ان دونوں کی نقل و حرکت طویل عرصے سے محدود ہونے اور ان کے زیرِ نگرانی ہونے کی وجہ سے ان کی طرف سے بغاوت کے امکانات بہت کم ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بار بہت سے لوگ بغاوت کے الزامات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔

حالیہ گرفتاریوں کی 2 ایسی وجوہات ہیں جو زیادہ قابلِ قبول اور منطقی نظر آتی ہیں۔ ان میں پہلی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ احمد بن عبدالعزیز بیعت کونسل کے سربراہ کا خالی عہدہ سنبھالنے کے لیے جوڑ توڑ کر رہے تھے، یاد رہے کہ بیعت کونسل میں ہی بادشاہ کے جانشین کا فیصلہ ہوتا ہے۔

شاہ سلمان نے بادشاہت سنبھالنے کے بعد محمد بن سلمان کو ولی عہد بنانے کے لیے اسی کونسل کو استعمال کیا تھا اور بیعت کونسل کے 34 میں سے 31 ارکان نے محمد بن نائف کو ہٹانے اور محمد بن سلمان کو ولی عہد بنانے کی منظوری دی تھی۔ اب یہ خیال کیا جارہا ہے کہ احمد بن عبدالعزیز بیعت کونسل کے سربراہ بن کر محمد بن سلمان کا راستہ روک سکتے تھے، کیونکہ شاہ سلمان کو کچھ ہونے کی صورت میں بیعت کونسل نے ہی نئے بادشاہ کی توثیق کرنی ہے۔

ایک اور وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ محمد بن سلمان خود تخت سنبھالنے کے لیے بے چین ہیں اور نومبر سے پہلے تخت نشینی کا سوچ رہے ہیں اور نومبر میں جی20 سربراہ کانفرنس میں وہ عالمی طاقتوں کی ایک طرح سے توثیق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ محمد بن سلمان کو بادشاہ کی خرابی صحت کی بنا پر تخت سے علیحدگی اور خود اقتدار میں آنے کے لیے بیعت کونسل کی توثیق کی ضرورت ہوگی، اور اگر بیعت کونسل میں شامل سینئر شہزادے محمد بن سلمان کی توثیق کردیتے ہیں تو انہیں خاندان کے اندر سے زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

احمد بن عبدالعزیز کی گرفتاری کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق احمد بن عبدالعزیز کو جمعے کو شاہی محل میں ملاقات کے لیے بلایا گیا تھا جہاں ان سے محمد بن سلمان کے اس منصوبے کے لیے تائید لینے کی کوشش کی گئی۔ جب ان کی طرف سے انکار کیا گیا تو انہیں شاہی محل سے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ محمد بن نائف کو بھی اس منصوبے کی حمایت نہ کرنے کی پاداش میں صحرا میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔

موجودہ وزیرِ داخلہ عبدالعزیز بن سعود بن نائف کو بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن مختصر تفتیش کے بعد رہا کردیا گیا اور اب ان کے بارے میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ وہ اپنے 2 چچاؤں کی گرفتاری پر کیا ردِعمل دیں گے۔ محمد بن نائف موجودہ وزیرِ داخلہ کے سگے چچا ہیں اور وزیرِ داخلہ کے والد سعود بن عبدالعزیز اس وقت کے مشرقی صوبے کے گورنر ہیں۔ سعودی عرب میں اب تک جو سینئر شہزادے گرفتار ہیں ان میں شاہ سلمان کے مرحوم بھائی کے بیٹے 75 سالہ محمد بن سعد بن عبدالعزیز بھی شامل ہیں جو بیعت کونسل کے رکن بھی ہیں۔

محمد بن سلمان اندرونی لڑائی کے علاوہ بیرونِ ملک تیل قیمتوں کی لڑائی بھی چھیڑ چکے ہیں۔ اس لڑائی کی وجہ سے تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں دھڑام سے نیچے آچکی ہیں۔ سعودی عرب نے یہ لڑائی جنیوا میں اوپیک پلس کے اجلاس کے بعد چھیڑی۔ یہ اجلاس حقیقت میں تیل کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے بلایا گیا تھا تاکہ کورونا وائرس کی وجہ سے سست ہوتی عالمی معیشت میں تیل کی طلب میں کمی کا مل کر سامنا کیا جا سکے۔ تیل کا سب سے بڑا خریدار چین کورونا وائرس کی وجہ سے تیل ٹینکروں کو واپس بھجوا رہا تھا۔

اس اجلاس میں روس نے پیداوار میں کمی کی تجویز کی مخالفت کی اور کوئی معاہدہ طے نہ پاسکا۔ اس پر سعودی عرب نے تیل پیداوار بڑھانے اور تیل کی قیمت میں کمی کا علان کردیا۔ ملکی معیشت کا دار و مدار تیل کی پیداوار پر ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کا یہ فیصلہ اس کے لیے بہت بڑا رسک ہے۔ سعودی عرب کے اس فیصلے سے تیل کی قیمتیں 1991ء کے بعد کم ترین سطح پر آگئیں ہیں۔

سعودی عرب کے تیل پیداوار بڑھانے کے فیصلے پر عرب امارات نے بھی پیداوار یومیہ ایک ملین بیرل بڑھانے کا اعلان کیا اور اب وہ پیداوار کو 5 ملین بیرل یومیہ تک لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ کرکے سعودی عرب نے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ وہ تیل کی سپلائی میں ’شاک آبزرور‘ کا کام کرتا ہے لیکن اب اس شاک آبزرور کے بغیر مارکیٹ کیسی ہوسکتی ہے۔

دوسرا پیغام یہ تھا کہ اگر توانائی مارکیٹ کو ری مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا جائے تب بھی خلیجی ملک اس صورتحال کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور وہ امریکی شیل آئل سے بھی سستا تیل بیچ سکتے ہیں۔

سعودی عرب کے اس فیصلے کے بعد امریکا کی درمیانے سائز کی 3 آئل کمپنیوں اپاچی، ڈیوون اور مرفی آئل نے اپنے بھاری قرضوں کی وجہ سے ایک تہائی بجٹ کم کردیے کیونکہ وہ گلف کی سرکاری تیل کمپنیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ روس بھی پیداوار میں کمی پر تیار تھا لیکن اس حد تک نہیں کہ اس سے امریکی شیل آئل کو فائدہ پہنچے۔ روس پیداوار بڑھانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے اس لیے مقابلے کے لیے تیار بھی نہیں۔

اس فیصلے سے خلیجی ممالک کو بھی بڑا نقصان پہنچے گا اور اگر قیمت 30 ڈالر فی بیرل رہتی ہے تو تیل پیدا کرنے والے 6 ملکوں کے ریونیو میں 140 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوگی۔ کویت، قطر اور عرب امارات اس نقصان کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن سعودی عرب، بحرین اور عمان اس کو برداشت نہیں کر پائیں گے۔

سعودی عرب کو بجٹ خسارہ صفر رکھنے کے لیے تیل کی قیمت 83 ڈالر فی بیرل کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کے زرِمبادلہ ذخائر 490 ارب ڈالر ہیں، زرِمبادلہ کے ذخائر کے بغیر معیشت رُک سکتی ہے کیونکہ ملک اپنی درآمدات کا بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں سعودی عرب کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض کی ضرورت پڑسکتی ہے کیونکہ اس کے اخراجات اس کے تیل کی آمدن سے زیادہ ہیں۔

روس جس کے ساتھ سعودی عرب نے تیل قیمتوں کی جنگ چھیڑی ہے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 440 ارب ڈالر ہیں، روس کو اپنا بجٹ پورا کرنے کے لیے تیل قیمتیں 42 ڈالر فی بیرل مطلوب ہیں۔ روس وینزویلا کے تیل کی وجہ سے اپنی سرکاری تیل کمپنی پر امریکی پابندیوں پر ناراض تھا اور سعودی عرب کو اپنے ساتھ رکھ کر امریکی شیل آئل کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔ روس کا خیال ہے کہ اگر تیل قیمت 40 ڈالر فی بیرل سے کم پر آتی ہے تو کئی امریکی شیل کمپنیاں بند ہوسکتی ہیں۔ روس اور سعوی عرب اب تیل قیمت کی جنگ کو زیادہ عرصہ جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ دونوں کی معیشت اس جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔

سعودی عرب نے تیل کی پیداوار بڑھا کر اور قیمت گھٹا کر ایک جوا کھیلا ہے۔ سعودی عرب اس طرح عالمی مارکیٹ کے بڑے حصے پر قابض ہونے کا سوچ رہا ہے لیکن اس طرح سعودی عرب کا تیل پر انحصار ختم کرنے کی پالیسی دم توڑ جائے گی۔ سعودی عرب کی معیشت کا 80 فیصد انحصار تیل پر ہے اگر یہی صورتحال جاری رہتی ہے تو مستقبل کے منصوبوں پر اثر پڑے گا کیونکہ تیل قیمت بڑھے تو ریونیو بڑھے گا اور کم ہوئی تو خزانہ خالی ہوتا جائے گا۔

تیل پر انحصار کم کرنے کا وژن 2030ء پہلے ہی اہداف سے بہت پیچھے ہے۔ آرامکو کے حصص فروخت کے لیے پیش کیے گئے لیکن توقع کے مطابق ابتدائی طور پر آرامکو کی مارکیٹ ویلیو 2 کھرب ڈالر نہیں لگ سکی۔ اب تیل قیمتوں میں کمی کے بعد آرامکو کے حصص کی قیمت 12 فیصد کم ہوچکی ہے۔ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کے اہداف بھی اب تک حاصل نہیں ہو پائے۔

محمد بن سلمان کی پالیسیاں ایک جواری کی چالوں جیسی ہیں، تیل قیمتوں کی جنگ، نومبر تک بادشاہت سنبھلانے کے لیے شہزادوں کی گرفتایاں محمد بن سلمان کے نئے جوئے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے داماد کے دلائے اعتماد پر محمد بن سلمان نے یہ بڑے داؤ کھیلے ہیں کیونکہ یہ بھی اطلاع ہے کہ شہزادوں کے بارے میں بغاوت کی خبر امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے پہنچائی۔ امریکی صدر پر جوا بھی بڑا داؤ ہے، اگر نومبر کے الیکشن میں ٹرمپ کے مدِمقابل جو بائیڈن آتے ہیں اور جیت بھی جاتے ہیں تو ان کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی بالکل مختلف ہوگی۔

امریکی سی آئی اے بھی محمد بن نائف کو سعودی عرب میں اپنا اثاثہ سمجھتی ہے، اس لیے اگر بائیڈن صدر نہیں بھی بنتے تو وائٹ ہاؤس میں سی آئی اے کے مہرے صدر ٹرمپ کو پالیسی بدلنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں محمد بن سلمان کے مقابلے میں امریکا محمد بن نائف کا حمایتی بن کر سامنے آسکتا ہے۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …