جمعرات , 25 اپریل 2024

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہج البلاغہ کی روشنی میں

سید حسنین عباس گردیزی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ:
معاشرے کو قابل عمل نمونے (آئیڈیل )کی ضرورت ہوتی ہے جس کی پہچان لازمی ہے۔ قرآن مجید اسلامی معاشرے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلیٰ ترین نمونہ (اسوہ) قراردیتا ہے؛ ارشاد ہو تا ہے۔ ”لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة ”١ تمہارے لئے بہترین نمونہ رسول اللہ کی زندگی ہے۔ لہٰذا انتہائی ضروری ہے کہ معاشرے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے مختلف پہلوؤں کا دقت نظر سے مطالعہ کیا جائے اور اُسے معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ معاشرہ ان سے الہام لیتے ہوئے ترقی اور سعادت کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسی بات پر زور دیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ”وَلقد کان فِی رَسُولِ اللّٰہِ (صلّی اللہ علیہ وآلہ) کافٍ لَکَ فِی الْاسْوَةِ وَ دَلِیل لَکَ عَلٰی ذَمِّ الدُّنیا وعَیْبِھَا وکَثْرَةِ مَخَازِیھَا، و مَسَاوِیھَا، اِذ قُبِضَتْ عَنْہُ اَطْرَفُھَا وَ وُطِّئَتْ لِغَیْرِہ اَکْنَافُھَا وَفُطِمَ عَنْ رَضَاعِھَا وَ زُوِیَ عَنْ زخارِفِھَا” ٢ یقیناً رسول اکرم کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپ کی ذات دنیا کے عیوب اور اس کی ذلت و رسوائیوں کی کثرت کو دکھانے کے لئے راہنما ہے اس لئے کہ آپ سے دنیا کے دامنوں کو سمیٹ لیا گیا اور دوسروں کے لئے اس کی وُسعتیں ہموار کر دی گئیں آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کر دیا گیا۔

اسی خطبے میں آپ کے اُسوہ ہونے اور اس کی پیروی کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”فَتَأَسَّ بنَبِیِّکَ الْاَ طیَبِ الاَ طْھَرِ صلی اللہ علیہ وآلہ فَاِنَّ فِیہ اُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّی،و عَزَآئً لِمَنْ تَعَزَّیٰ وَ اَحَبُّ العِبَادِ اِلَی اللّٰہِ الْمُتَأَسِّیْ بِنَبِیِّہ، وَالْمُقْتَصُّ لِاَثَرِہِ، قَضَمَ الدُّنیا قَضْماً وَلَمْ یعْرِھَا طَرْفاً اَھْضَمَ اَھْلَ الدُّینَا کَشْحاً وَ اَخْمَصَھُمْ مِنَ الدُّنیا بَطْناً عُرِضَتْ عَلَیہِ الدُّینا فَاَبیَ اَنْ یقْبَلَھَا ، وَعَلِمَ اَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ اَبْغَضَ شَیئاً فَاَبْغَضَہُ و حَقَّرَ شئیاً فَحَقَّرَہُ، و صَغَّرَ شَیاً فَصَغَّرہُ وَلَو لَمْ یکُنْ فِینَا اِلَّا حُبُّنَا ما اَبْغَضَ اللّٰہُ وَ رَسُولُہ، و تعظیماً ما صَغَّرَاللّٰہُ و رَسُولُہ لَکَفٰی بِہ شِقَاقًا لِلّٰہِ وَ مُحَادَّةً عَنْ اَمْ اللّٰہِ ”٣ تم لوگ اپنے طیب و طاہر پیغمبر کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والوں کے لئے بہترین نمونہ اور صبر و سکون کے طلب گاروں کے لئے بہترین سامان صبر و سکون ہے، اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے رَسُول کی پیروی کرے اور ان کے نقش قدم پر قدم آگے بڑھائے۔ انہوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکر دیکھا بھی نہیں، ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم پیٹ رہنے والے اور شکم تہی میں بسرکرنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جب جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو پسند نہیں کیا تو آپ نے بھی اُسے ناپسند کیا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپ نے بھی اُسے حقیر ہی سمجھا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپ نے بھی اُسے پست قرارد یا ہے اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کوئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا اور رسول کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا اور رسول کی نگاہ میں چھوٹے اور حقیر کو عظیم اور بڑا سمجھنے لگیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سر تابی کے لئے یہی عیب کافی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت وعدہ الٰہی:
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کی نبوت کا وعدہ دیا تھا اور گذشتہ انبیاء کی زبانی آپ کی خبر دی تھی پس اللہ تعالٰی نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اُسے تکمیل کیا جس کی خبر پہلے دی تھی۔ اسی طرح اللہ تعالٰی نے اپنے انبیاء سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں اور لوگوں کو آپ کے بارے میں بشارت دیں اور جب آپ کو پائیں تو پیروی کریں قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں جو انبیاء کے میثاق کی بات کی ہے وہ اسی طرف اشارہ ہے۔ ارشاد ہو تا ہے: ”وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیثَاقَ النَّبییّنَ لَمَآ اَتَیتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَةٍ ثُمَّ جَاءکُمْ رَسُوْل مُّصَدِّق لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُنَّہٰ قَالَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْط قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِینَ”٤ اور اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر آئندہ رسول تمہارے پاس آئے اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق کرے تو تمہیں اس پر ضرور ایمان لانا ہو گا اور ضرور اس کی مدد کرنا ہو گی۔ پھر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے عہد کی ذمہ داری لیتے ہو انہوں نے کہا ہاں! ہم نے اقرار کیا۔ اللہ نے فرمایا: پس تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

امیر المومنین نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: ”اِلٰی اَنْ بَعَثَ اللّٰہُ سبحانہ محمّدًا رسولَ اللّٰہِ صلّیٰ اللہ علیہ وَآلہ وسلم لِاَنجاز عِدَتِہ و اِتْمام نَبُّوتِہ مأخوذاً عَلیَ النبِیّن میثاقُہ مَشھُورةً سِماتُہْ کریمًا مِیلادُہُ ” یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد اور اتمام نبوت کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا۔ جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔ اسی مطلب کو امیر المومنین علی علیہ السلام نے ایک اور مقام پر واضح طور پربیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالی نے ہمارے نبی سے پہلے آنے والے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ ہمارے نبی کے مبعوث ہونے کی خبر اور ان کے فضائل اپنی اپنی امتوں کو بیان کریں اور انہیں ان کے آنے کی بشارت اور تصدیق کرنے کا حکم دیں۔ ٥

آنحضرت کی بعثت کے وقت عربوں کی سیاسی اور معاشرتی حالت:
امیرالمومنین علی علیہ السلام خطبہ نمبر١ میں فرماتے ہیں: ”وَ اَھلُ الْاَرْضِ یوْمَئِذٍ مِلَل مُتَفَرِّقَة وَ اَھْوَ آئ مُنْتَشِرَة وَ طَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَة بَینَ مُشَبِّہٍ لِلّٰہَ بِخَلْقِہ اَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمِہ اَوْ مُشِیرٍ اِلٰی غَیرِہ فَھَدَاھم بِہ مِنَ الضَّلالَةِ وَ اَنْقَذَھَمْ بِمَکانِہ مِنَ الجَھَالَةِ” ٦ اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور الگ الگ راستوں پر گامزن تھے۔ اس طرح سے کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے، کچھ اُسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ پس خداوند عالم نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور آپ کے وجود سے جہالت سے باہر نکالا۔” خطبہ نمبر ٢ میں انہوں نے عربوں کے حالات تفصیل سے بیان کئے ہیں : ”وَالنّاسُ فِی فِتَنٍ اَنْجَذَمَ فیھا حَبْلُ الدِّین و تَزَعْزَعَتْ سَوَارِیِ الیقِین وَاخْتَلَفَ النَّجْرُو تَشَتَّتَ الاَمْرُ و ضَاقَ المَخْرَجُ و عَمِیَ المَصْدَرُ فالْھُدَی خَامِل وَالْعَمَیَ شامِل عُصِیَ الرَّحٰمنُ و نُصِرَ الشَّیْطاٰنُ و خُذِلَ الِایمٰانُ فَانْھَارَتْ دَعَائِمُہُ، و تَنَکَّرَتْ مَعَالِمُہُ و دَرَسَتْ سُبُلُہُ و عَفَتْ شُرُکُہُ اَطَاعُوا الشَّیطانَ فَسَلَکُوا مَسَالِکَہُ وَ وَرَدُوا مَنَاھِلَہُ، بِھِمْ سَارَتْ اَعْلَامَہُ وَ قَامَ یوَاؤُہُ فَی فَتَنٍ دَاسَتْھُمْ بِاَخْفَا فِھَا،وَوَطِئَتْھُمْ بِاَظْلَافِھَا،وقَامَتْ عَلیَ سَنَابِکِھَا فَھُمْ فِیھَا تَائِھُونَ حائِرُوْنَ جَاھِلُونَ مَفْتُونُونَ فِی خَیرِ دارٍ،وشَرِّ جِیْرَانٍ ،نُومْھُمْ سُہُود وکُحْلُھُمْ دُمُوع باَرْضٍ عَالِمُھَا مُلْجَم وجَا ھِلُھٰا مُکْرَم ”٧

یہ بعثت اس وقت ہوئی جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی، یقین کے ستون متزلزل ہو گئے، اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے، ہدایت گمنام تھی اور گمراہی بر سرعام، رحمٰن کی نافرمانی ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہو گیا تھا، اس کے ستون گرگئے تھے اور آثار ناقابل شناخت ہو گئے تھے، راستے مٹ گئے تھے اور شاہرائیں بے نشان ہو گئی تھیں، لوگ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموں پر وارد ہو رہے تھے، انہی کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اس کے عَلمَ سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سُموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے۔ یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے، ایک ایسے گھر (مکہ) میں یہ لوگ تھے جو خود اچھا مگر اس کے بسنے والے بُرے تھے، جہاں نیند کی بجائے بیداری اور سُرمے کی جگہ آنسو تھے، اس سرزمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی اور جاہل معزز و سرفراز تھا۔

حضرت علی علیہ السلام مزید ان کے حالات ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں: ”بَعَثَہُ وَالنَّاسُ ضُلَّال فِی حَیرَةٍ و خاطِبُونَ فِی فِتْنَةٍ، قَدْ اسْتَھْوَتْھُمْ اْلاَھْوَائُ واسْتَزَلَّتھُمُ الْکِبْیِریائُ، واسْتَخَفَّتْھُمُ الْجَاھِلِیّةُ الجَھْلَائُ حَیارَیٰ فِی زِلْزَالٍ مِنَ الآمْرِ وَبَلاَئٍ مِنَ الجَھْلِ و مَبَالَغَ صلی اللہ علیہ وآلہ فِی النَّصِیحَةِ و مَضَی عَلیَ الطَّرِیقَةِ، وَ دَعَا اِلَی الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ ”٨ اللہ سبحانہ نے آپ کو اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں سرگرداں تھے، فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی، جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیا تھا اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے۔ آپ نے نصحیت کا حق ادا کر دیا، سیدھے راستے پر چلے اور لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے دیگر خطبات میں بھی ان کے حالات کی تصویر کشی کی ہے۔٩

آپ نے ایک اور مقام پر جاہلیت عرب کی وضاحت فرمائی ہے۔ ”یقینا اللہ تبارک و تعالٰی نے محمد کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا ہے۔ اے گروہ عرب! اُس وقت تم بدترین دین پر اور بدترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہر یلے سانپوں میں تم بودوباش رکھتے تھے، تم گدلا پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے، ایک دوسرے کاخون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے قطع تعلقی کرتے تھے، بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے ۔10 یہ جملے جناب امیر علیہ السلام نے عربوں کی تحقیر کرنے کرلئے نہیں فرمائے تھے بلکہ آپ نے چاہا کہ عظیم نعمتیں انہیں یاد دلائیں بالخصوص عربوں کے لئے عظیم ترین افتخار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کے درمیان مبعوث ہونا، انہیں یاد دلائیں یہ وہ وقت تھا جب اللہ تعالٰی نے اپنے آخری نبی کو ان کے درمیان بھیجا جن کی وجہ سے جہالت اور گمراہی کا انداھیرا چھٹ گیا اور ہر طرف آپ کے نور سے اجالا چھا گیا اور عرب دنیا تہذیب و تمدن کا گہوارہ بن گئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد:
امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مختلف بیانات میں آنحضرت کی بعثت کے مقاصد یوں بیان فرمائے ہیں۔
١۔ حق کی طرف دعوت دینا:
”اَرْسَلَہُ دَاعِیاً اِلَی الحَقِّ وَشَاھِدًا عَلَی الخَلْقِ”١١ اللہ نے پیغمبر اکرم کو اسلام اور حق کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا
٢۔ لوگوں کو عذاب الہی سے متنبہ اور ڈرانے کے لئے:
”اِنَّ اللّٰہ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلّیٰ اللّٰہ علیہ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نَذِیرً لِّلْعٰالَمیْنَ وَامِینًا عَلَی التَّنْزِیلِ”١٢ بےشک اللہ تعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے ڈرانے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔

٣۔ بت پرستی اور اطاعت شیطان کی ذلتوں سے نکالنا:
”فَبَعَثَ اللّٰہُ محمّداً، صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ بِالحقِّ لِیُخْرِج عِبَادَہُ الَاوْثَانِ اِلٰی عبادَة، وَ مَنْ طَاعَةِ الشَّیْطَانِ اِلیٰ طاعَتِہ، بِقُرآنٍ قَدْ بَیّنَہُ وَ اَحْکَمَہُ لِیعْلَمَ الِعبَادُ رَبَّھُمْ اِذ جَھِلُوہ، وَلِیقِرُّوا بِہ اذ جَحَدُوہُ ولِیُثْبِتُوہ بَعْدَ اِذْا نَکَرُوہ”١٣ پروردگار نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمٰن کی اطاعت کرائیں اس قرآن کے ذریعہ جسے اُس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تا کہ بندے اپنے رب سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اُسے پہچان لیں، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں۔

٤۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا:
”ثُمَّ اِنَّ اللّٰہ سبحانہ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلّی اللہ علیہ وآلہ بالحَقِّ حین دَنَا من الدُّینا الْا نْقِطَاعُ، وَاَقْبَلَ الآخِرَةِ الِا طِلّاَعُ۔۔۔۔۔جَعَلَہُ اللّٰہُ بَلَاغاً لِرِسَالَتِہ ،وَ کَرَامَةً لِاُمَّتِہ، وَ رَبِیْعاً لِاَھْلِ زَمانہ ورِفْعَةً لِاَعْوَانِہ وَ شَرَفاً لِاَنْصَارِہِ ”١٤ اس کے بعد اللہ سبحانہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، جب دنیا فنا کی منزل کے قریب تر ہو گئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی ۔۔۔۔اللہ تعالٰی نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ، امت کی کرامت، اہل زمانہ کی بہار، اعوان و انصار کی بلندی کا ذریعہ اور ان کا یارومددگار افراد کی شرکت کا واسطہ قرار دیا۔ دوران رسالت،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانفشانی اور جدوجہد:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کے اہداف کو کس طرح حاصل کیا اور الٰہی اہداف کو کیسے پایہ تکیمل تک پہنچایا، اس بارے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اَرْسَلَہُ داعِیاً اِلَی الحَقِّ و شَاہِدًا عَلَی الْخَلْقِ مَبَلَّغَ رِسَالاتِ رَبِّہ غَیْرَ وَانٍ ولا مُقَصِّرٍ وَ جَاھَدَ فِی اللّٰہِ اَعْدَائَہُ غَیْرَ وَاَھِنٍ ولا مُعَذِّرٍ اِمَامُ مَنِ اِتَّقیٰ وَبَصَرُ منِ اھْتَدیٰ”١٥ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو حق کی طرف بلانے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا تو آپ نے پیغام الٰہی کو مکمل طور پر پہنچا دیا نہ اس میں کوئی سُستی کی نہ کوتاہی اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا اور اس میں نہ کو ئی کمزوری دکھائی اور نہ کسی حیلہ اور بہانہ کا سہارا لیا، آپ متقین کے امام اور طالبان ہدایت کے لئے آنکھوں کی بصارت تھے۔

حضور کی جدوجہد کے متعلق فرماتے ہیں: ”اَرْسَلَہُ بوُجُوب الحُحَج، و ظُھُورِ الفَلَجِ، وَ اِیضَاحِ المَنْھَجِ، فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صَادِعاً بِھَا و حَمَلَ عَلَی المَحَجَّةِ دَالّا عَلَیْھَا وَ اَقَامَ اَعْلَامَ الِا ھْتِدَائِ ومَنَارَ الِضّیَائِ، وَ جَعَلَ اَمْرَ اسَ الِاسْلامِ مَتِینَةً وَعُرَیٰ الاِ یمٰانِ وَثِیقَةً ”١٦ اللہ تعالٰی نے آپ کو ناقابل انکار دلیلوں، واضح کامرانیوں اور راہ (شریعت) کی راہنمائیوں کے ساتھ بھیجا آپ نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کر دیا اور لوگوں کو سیدھے راستے کی راہنمائی کر دی۔ ہدایت کے نشان قائم کر دیئے اور روشنی کے منارے استوار کر دیئے اسلام کی رسیوں کو مضبوط بنا دیا اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کر دیا۔

آنحضرت کا خاندان اور ان کا مقام و مرتبہ:
خطبہ ١٦١ میں بیان کرتے ہیں: "اِبْتَعَثَہُ بالنُّور المُضِیئِ، والبُرْھَانِ الجَلِیَّ وَالمِنْھاجِ البَادِی، والکتاب الھَادِیْ، اُسْرَتُہُ خَیْرُ اَسْرَةٍ وَشَجَرَتَہُ خَیْرُ شَجَرَةٍ، اغضانُھَا مُعْتَدِ لَة، وَثِمَارُھا مُتَھَدِّ لة ”١٧ پروردگار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روشن نور (واضح دلیل) نمایاں راستہ اور ہدایت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان بہترین خاندان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شجرہ بہترین شجرہ ہے، جس کی شاخیں معتدل ہیں اور ثمرات دسترس کے اندر ہیں۔

خطبہ ١٠٦ میں بیان فرمایا ہے: ”اِخْتَارَہُ مِنْ شَجَرَ ةِ الْاَنْبَیَاء مِشْکَاةِ الِضّیَاء وَ ذُؤَابَةِ الْعَلْیَاء وَ سُرَّةِ البَطْحائِ و مَصَاِبَیحِ الظُّلْمَةِ، و ینَابِیع اِلحِکْمَةِ”١٨ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نے انبیاء کے شجرہ، روشنی کے مرکز (آل ابراہیم) بلندی کی جبیں (قریش) بطحاء کی ناف (مکہ) اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا۔ خطبہ٩٢ میں بیان کرتے ہیں: ”انبیاء کرام کو پروردگار نے بہترین مقامات پر ودیعت رکھا اور بہترین منزل میں ٹھہرایا، وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے، جب ان میں سے کوئی گزرنے والا گزر گیا تو دین خدا کی ذمہ داری بعد والے نے سنبھال لی یہاں تک کہ یہ الٰہی شرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا اس نے انہیں بہترین نشوونما والے معدنوں اور ایسی اصلوں سے جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہت باوقار تھیں، پیدا کیا اس شجرہ سے جس سے بہت سے انبیاء پیدا کئے اور اپنے امین منتخب فرمائے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عترت، بہترین عترت اور ان کا خاندان شریف ترین خاندان ہے، ان کا شجرہ وہ بہترین شجرہ ہے جو سرزمین حرم پراُگا ہے اور بزرگی کے سایہ میں پروان چڑھا ہے، اس کی شاخیں بہت طویل ہیں اور اس کے پھل انسانی دسترس سے بالاتر ہیں۔ ”١٩

توصیف و تعریف:
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی اوصاف اور آپکی سچی تعریف اور دقیق ہے کہ انسان اس کی سحر انگیزی اور معنی کی گہرائی میں ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے، چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام خطبہ نمبر ١٠٥میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یوں تعریف کرتے ہیں۔ ”حَتَّی بَعَثَ اللہُ محمّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ، شھیداً و بَشِیراً، و نذیراً، خَیر الَبرِّیةِ طِفلاً، واَنْجَبَھَا کَھْلاً، وَ اَطْھَرَ الْمُطَھَّرِینَ شِیمَةً، وَ اَجْوَدَ المُسْتَمطَرِینَ دِیمَةً ”٢٠ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت کے اعمال کا گواہ، ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا، جو بچپن میں بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہونے پر بھی اشرف کائنات تھے ، عادات کے اعتبار سے تمام پاکیزہ افراد سے زیادہ پاکیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے۔

ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح یوں کرتے ہیں: ”فَھُوَ اِمامُ مَنِ اتَّقٰی، و بَصیرَة مَنِ اھْتَدیٰ، سراج لَمَعَ ضَوْئُ ہ، وَ شِھَاب سَطَعَ نُورُہ و زَنْد بَرَقَ لَمْعُہُ، سِیرَتُہُ الْقَصْدُ، و سُنَّتُہُ الرُّشْدُ وکَلَامُہُ الْفَصْل، و حُکْمُہُ الْعَدْلُ، اَرْسَلَہُ عَلَیٰ حِینَ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَ ھَفْوَةٍ عَنِ العَمَلِ، غَبَاوَةٍ مِنَ اْلُامَمِ”٢١ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل تقویٰ کے امام اور طالبان ہدایت کے لئے سرچشمہ بصیرت ہیں، آپ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لَوْ دے رہی ہے اور ایسا ستارہ جس کا نور درخشاں ہے اور ایسا چقماق ہیں جس کی چمک شعلہ فشاں ہے، ان کی سیرت میانہ روی، سنت رشد و ہدایت، ان کا کلام حرف آخر اور ان کا فیصلہ عادلانہ ہے، اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اور بدعملی کا دور دورہ تھا اور امتوں پر غفلت چھائی ہوئی تھی۔

ایک اور مقام میں بیان فرمایا:
"بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام بہترین مقام اور آپ کی نشوونما کی جگہ بہترین منزل ہے، نیک کرداروں کے دل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھکا دئیے گئے اور نگاہوں کے رخ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف موڑ دیئے گئے، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ کینوں کو دفن کر دیا اور عداوتوں کے شعلے بجھا دئیے، لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور کفر کی برادری کو منتشر کر دیا، اہل ذلت کو با عزت بنا دیا اور کفر کی عزت پر اکڑنے والوں کو ذلیل کر دیا، آپ کا کلام شریعت کا بیان اور آپ کی خاموشی احکام کی زبان ”٢٢

رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے مکارم اخلاق:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلٰی اخلاق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے: ”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ”٢٣ بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔” خود آپ نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے آپ کا فرمان ہے: ”اِنَّما بعثت لاُتَمِّمَ مَکَارِمِ الَاخْلَاقِ ”٢٤ یہ اخلاق کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے اسی طرح آپ انہی اعلٰی اخلاق و صفات کا اعلٰی ترین نمونہ ہیں، نہج البلاغہ میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلٰی اخلاق کا تذکرہ ہے انہیں یہاں بیان کیا جاتا ہے۔

زہد و پارسائی:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”قَدْ حَقَّرَ الدُّنْیا وَ صَغَّرَھَا وَ أَھْوَنَ بِھَا وَ ھَوَّنَھَا وَ عَلِمَ أَنَّ اللّٰہَ زَوَاھَا عَنْہُ اَخْتِیَاراً، وَ بَسَطَھَا لِغَیْرِہِ احْتِقَاراً، فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیا بِقَلْبِہِ، وَ أَمَاتَ ذِکْرَھَا عَنْ نَفْسِہِ، وَ أَحَبَّ أَن تَغِیبَ زِینَتُھَا عَنْ عَیْنِہِ، لِکَیْلَا یتَّخِذَ مِنْھَا رِیاشاً، أَو یرْجُوَ فِیھَا مَقَاماً، بَلَّغَ عَنْ رَبِّہِ مُعْذِراً، وَ نَصَحَ لِأُمَّتِہِ مُنْذِراً، وَ دَعَا اِلَی اَلْجَنَّةِ مُبَشَّراً، وَ خَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذَّراً”٢٥ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور یہ جانتے تھے اللہ نے آپ کی شان کو بالاتر سمجھتے ہوئے اور اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور گھٹیا سمجھتے ہوئے دوسروں کے لئے اس کا دامن پھیلا دیا ہے، لہٰذا آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور کسی نہ خاص مقام کی امید کریں ،آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر اور بہانے بر طرف کر دئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہوئے نصحیت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اور جہنم سے بچنے کی تلقین کر کے خوف پیدا کرایا۔

اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”وَلَقَدْ کَانَ صَلَّیٰ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ، یأکُلُ عَلَیٰ اْلَٔارضِ، وَ یجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ، وَ یخْصِفُ بِیدِہِ نَعْلَہُ، وَ یرْقَعُ بِیدہِ ثَوْبَہُ، و یرْکَبُ اَلْحِمَارَ اَلْعَارِیَ وَ یرْدِفُ خَلْفَہُ وَ یکُونُ السَّتْرُ عَلَیٰ بَابِ بَیتہِ فَتَکُونُ فِیہِ التَّصَاوِیرُ، فَیقُولُ: (یا فُلَانَةُ لِاحْدَیٰ أَزْوَاجِہِ غَیِّبیہِ عَنِّی، فَانِّیِ اِذَا نَظَرْتُ اِلَیہِ ذَکَرْتُ الدُّنْیا وَ زَخَارِفَھَا) فَأَعْرَضَ عَنِ الَدُّنْیا بِقَلْبِہِ، وَ أمَاتَ ذِکْرَھَا مِنْ نَفْسِہِ، وَ أَحَبَّ أَنْ تَغِیبَ زِینَتُھَا عَنِ عَیْنِہِ، لِکَیْلَا یتَّخِذَ مِنْھَا رِیاشاً، وَلَا یعْتَقِدَھَا قَرَاراً، وَلَایرْجُوَ فِیھَا مُقَاماً، فَأَخْرَجَھَا مِنَ النَّفْسِ، وَ أَشْخَصَھَا عَنِ اَلْقَلْبِ، وَغَیَّبَھَا عَنِ اَلْبَصَرِ وَ کَذٰلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شَیاً أَبْغَضَ أَنْ ینْظُرِ اِلَیہِ ،وَ أَنْ یذْکَرَ عِنْدَہُ ”٢٦ رسول اللہ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے ہاتھ سے جوتی گانٹھتے تھے اور اپنے ہاتھو ں سے کپڑوں میں پیوند لگائے تھے اور بے پالان گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے، گھر کے دروازے پر ایک دفعہ ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو، جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آجاتی ہیں، آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج و دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تا کہ ان سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اُسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اُس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں، انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اُسے اوجھل رکھا تھا یونہی جو شخص کسی شے کو بُرا سمجھتا ہے تو اُسے نہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے۔

حسن سلوک اور مہربانی:
قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہترین اخلاقی خصوصیت حسن سلوک اور مہربانی و عطوفت بیان کرتا ہے، آپ نے اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا، ارشاد ہوتا ہے۔ ”فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ”٢٧ پس آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے لئے نرم خو اور مہربان ہیں اگر آپ سخت اور سنگدل ہوتے تو یہ لو گ آپ کے ارد گرد سے دُور ہو جاتے۔ حضرت علی علیہ السلام آنحضرت کی اسی خصوصیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں: ”وَ اَطْھَرَ المُطَھِّرِینَ شِیمَةً، وَ اَجْوَدَ المُسْتمْطَرِینَ دِیمَةً ”٢٨ عادات کے اعتبار سے آپ تمام پاکیزہ افراد سے پاکیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ۔

لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی:
قران مجید نے اپنی دو آیتوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صفت کے بارے میں بیان فرمایا : ”لَقَدْ جَآءکُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیز عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیص عَلَیکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَئُوْف رَّحِیْم” ٢٩ ”فَلَعَلّکَ بَاخِع نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیثِ اَسَفاً” ٣٠ حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ذکر کرتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھجیا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور بھرپور جاہلیت نے ان کی مت مار دی تھی اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے۔ ”فَبَالَغَ صلی اللہُ عیلہ وآلہ وسلَّم فِی النَّصِیْحَةِ ومَضٰی عَلَی الطّریقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ”٣١ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا ،سید ھے راستے پر چلے اور لو گوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے”

آنحضرت ایسے طبیب تھے جو خود بیماروں کے پاس چل کر جاتے تھے اور ان کا روحانی معالجہ کرتے تھے۔ اس بارے میں امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا : ”طبیب دَوَّا ربِطِبِّہِ قَدْ اَحْکَمَ مَرَاھِمَہُ ،وَ اَحْمَیٰ مَوَاسِمَہُ یضَعُ ذٰلِکَ حَیثُ الحَاجَةُ اِلَیہِ، مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ ،وَ آذانٍ صُمٍّ، وَ اَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتتبع بِدَوَائِہ مَوَاضِعَ الغَفْلَةِ وَ مَوَاطِنَ الحَیْرَةِ”٣٢ آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کو لئے ہوئے چکر لگا رہا ہو جس نے اپنے مرہم کو درست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو، وہ اندھے دلوں، بہرے کانوں، گونگی زبانوں (کے علاج معالجہ) میں جہاں ضرورت ہوتی ہے، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لئے ایسے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔

شجاعت و بہادری:
امیرالمومنین علی علیہ السلام کہ جو خود ‘اشجع الناس’ تھے وہ آنحضرت کی شجاعت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں: ”کُنَّا اِذَا حْمَرَّ الْبُأْسُ اتَّقَینَا بِرَسُولِ اللّٰہِ صلّیٰ اللّٰہُ عَلَیہ وآلہ وسلّم فَلَمْ یکُنْ اَحَد مِنَّا اَقْرَبَ اِلَی العَدُوِّ مِنْہُ”٣٣ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جب جنگ میں شدت پیدا ہو جاتی اور دو گروہ برسر پیکار ہو جاتے تو ہم آنحضرت کی پناہ میں آجاتے اور آپ کو اپنی سپر قرار دیتے کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت پر امیر المومنین علیہ السلام کے تاثرات:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا: ”بَاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّی یا رَسُولَ اللّٰہِ! لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مالم ینْقَطَعَ بِمَوْتِ غَیْرِکَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَاْلَانْبَائِ وَاَخْبَارِ السَّمَائِ خعَّصتَ حَتَّی صِرْتَ مُسَلِّیاً عَمَّنْ سِوَاکَ، وَ عَمَّمْتَ حَتَّی صَارَ النّاسُ فیلَ سَوَائً و لَوْلَا اَنَّکَ اَمَرْتَ بالصَّبْرِ وَ نَھَیتَ عَنِ الجَزَعِ، لَاَنْفَدْنَا عَلَیْلَ مائَ النتُّؤُونِ ولَکَانَ الدَّائُ مُمَا طِلاً، وَالْکَمَدُ مُحَالِفا، وَ قَلَّالکَ ولٰکِنَّہُ مالا یمْلَکُ رَدُّہُ، ولا یسْتَطَاعُ دَفْعُہُ! بِاَبی انت اُمِّی! اذکُرْنَا عِنْدَ رَبِّکَ، وَاجْعَلْنَا مِنْ بالِکَ۔ ”٣٤ یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کے رحلت فرما جانے سے نبوت، الٰہی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ ختم ہو گیا جو کسی اور نبی کے انتقال سے قطع نہیں ہوا تھا، آپ کا غم اہل بیت کے ساتھ یوں خاص ہوا کہ ان کے لئے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لئے عام ہواکہ سب برابر کے شریک ہو گئے، اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور نالہ و فریاد سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوؤں کا ذخیرہ ختم کر دیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج و الم ہمیشہ ساتھ رہتا، پھر بھی یہ گریہ و بکا اور حزن و اندوہ آپ کی مصیبت کے مقابلے میں کم ہوتا لیکن موت ایسی چیز ہے جس کا پلٹانا کسی کے بس میں نہیں اور جس کا ٹال دنیا کسی کے اختیار میں نہیں۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان مالک کی بارگاہ میں ہمار ابھی ذکر کیجئے گا اور اپنے دِل میں ہمارا بھی خیال رکھئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
١۔ القرآن: سورہ الاحزاب ،آیت ٢١
٢۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )خطبہ نمبر ١٥٨، ص٤٣٠، امامیہ پبلیکیشز ١٩٩٩نہج البلاغہ دکتر صبحی الصالح، خطبہ ١٦٠، ص٢٢٦مرکز العبوث اسلامیہ، ایران ١٣٩٥ء۔
٣۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین) خطبہ نمبر ١٥٨،ص٤٣٢
٤۔ القرآن، آلعمران، آیت ٨١
٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ١، ص٩٠(بحار الا نوار ،١١،١٢) (بلاغ المبین ،ص٨٥)
٦۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 1، ص٩٠
٧۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ٢، ص٩٩
٨۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ٩٣، ص٢٩٧
٩۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ١٥٦، ص٤٢٧، خطبہ نمبر ١٨٩، ص٥٢٣
١٠۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ٢٦، ص١٦٤۔١٦٥
١١۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ١١٤ ،ص٣٤٣
١٢۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٩٤، ص٥٦٣۔٥٦٢
١٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ١٤٥، ص٣٩٩
١٤۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٩٦، ص٥٧٠
١٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١١٤، ص٣٤٣
١٦۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٨٣، ص٥٠١
١٧۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٥٩، ص٤٣٥۔٤٣٤
١٨۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١١٠٦، ص٣١٩
١٩۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر٩٢ ،ص٢٩٦
٢٠۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٤٥، ص٣٩٩
٢١۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر٩٢، ص٢٩٦
٢٢۔ نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر٩٤ ،ص٢٩٨
٢٣۔ القرآن القلم، آیت ٤
٢٤۔ مجلسی ،محمد باقر،بحارالانوار ،ج ١٦ ،ص٢٨٧،ح١٤٢،موسئسہ الوفاء بیروت ،١٩٨٣ء
٢٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٠، ص٣٢٩۔٣٢٨
٢٦۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٥٨ ،ص٤٣٣۔٤٣٢
٢٧۔ القرآن، آلعمران، آیت ١٥٩
٢٨۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر١٠٣، ص٣١٢
٢٩۔ القرآن، التوبہ، آیت ١٢٨
٣٠۔ القرآن، الکہف، آیت ٦
٣١۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین)، خطبہ نمبر٩٣ ، ص٢٩٧
٣٢۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )، خطبہ نمبر١٠٦ ، ص٣١٩
٣٣۔ نہج البلاغہ فصل فذکر فیہ شیئا ً من اختیار غریب کلامہ المتحاج الی التفسیر، حدیث ٩
٣٤۔ نہج البلاغہ (ترجمہ مفتی جعفر حسین )،خطبہ نمبر ٢٣٢،ص٦٤١۔٦٤٠

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …