ہفتہ , 20 اپریل 2024

خاشقجی قتل کیس: ترکی میں 20 سعودی شہریوں پر فرد جرم عائد

ترکی کے پراسیکیوٹر نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دو قریبی ساتھیوں سمیت 20 افراد پر باقاعدہ فرد جرم عائد کردی۔برطانوی ویب سائٹ ‘گارجین’ کی رپورٹ کے مطابق استنبول میں چیف پراسیکیوٹر آفس کے عہدیدار عرفان فدین کا کہنا تھا کہ ترکی میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں 2018 میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر سعود القحطانی اور خفیہ ایجنسی کے نائب سربراہ احمد ال اسیری بھی فرد جرم عائد ہونے والے افراد میں شامل ہیں۔اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ تین انٹیلی جنس افسران کے تعاون سے 15 افراد استنبول پہنچے جہاں انہوں نے مذکورہ دونوں افراد کے احکامات بجا لائے۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں جب جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے مشتبہ کردار کی خبریں سامنے آئی تھیں جس کے بعد سعودی عرب کے اپنے اتحادیوں سے تعلقات خراب ہوئے جن میں امریکا سرفہرست تھا۔امریکی صدر نے سعودی عرب کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں، بعد ازاں سعودی ولی عہد کے خاشقجی کے قتل کی شفاف تحقیقات کے وعدے پر دونوں اتحادیوں کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے تھے۔سی آئی اے سمیت کئی مغربی حکومتیں اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا، تاہم سعودی عرب نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے اس کو جھوٹ قرار دیا تھا۔

ترک پراسیکیوٹر نے حتمی سماعت کی تاریخ دیے بغیر کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے گئے تھے لیکن ملک میں عدم موجودگی کے باوجود ٹرائل شروع ہوگا۔ترکی تمام 20 ملزمان کو عمر قید کی سزا دینے کے حق میں ہے۔دوسری جانب سعودی عرب نے اپنے شہریوں کو ٹرائل کے لیے ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔گزشتہ برس دسمبر میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 نامعلوم افراد کو سزائے موت سنادی تھی جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی افراد پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے سزاؤں کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔سعودی پراسیکیوٹر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ عدالت نے 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی جس میں سے تین کو بری کردیا گیا۔عدالت نے متاثرہ شخص کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت کا حکم دیا تھا جبکہ قتل کو چھپانے اور قانون کی خلاف ورزی پر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی تھی۔بیان میں کہا گیا تھا کہ مقدمے کی تحقیقات میں 31 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 21 کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ 10 افراد کو صرف سوال جواب کے لیے طلب کیا گیا کیونکہ عدالت کے پاس انہیں حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔اس مقدمے میں سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر اور کنسلٹنٹ سعود القحطانی پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے قتل کی مکمل منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے انہیں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں بری کردیا گیا تھا۔ان کے علاوہ عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد ال اسیری کو بھی بری کردیا تھا۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …