جموں وکشمیر میں عالمی وبا کورونا وائرس سے پیش آنے والی اموات اور متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے کے چلتے جاری لاک ڈاؤن غیر اعلانیہ کرفیو کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ تاہم صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر لوگ بھی اپنے گھروں تک ہی محدود رہ کر رضاکارانہ طور پر ‘سیول کرفیو’ نافذ کرچکے ہیں۔وادی کشمیر جہاں کورونا وائرس کے مہلوکین اور متاثرین کی تعداد بڑھتی ہی چلی جارہی ہے، میں اتوار کو مسلسل 11 ویں روز بھی مکمل لاک ڈؤان جاری رہا۔
لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے سڑکوں اور گلی کوچوں میں جو قدغنیں لگائی گئی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ پوری وادی میں گویا غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے۔ تاہم وادی میں پہلی بار لوگوں کی اکثریت کرفیو جیسی پابندیوں پر راضی نظر آرہی ہے اور مقامی لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو گھروں میں ہی بیٹھنے کا مشورہ دیتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
وادی میں اب تک کورونا وائرس کے باعث دو افراد جن کی عمر 60 سے 65 برس کے درمیان تھی، کی موت واقع ہوچکی ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دو درجن سے زیادہ ہے اور متاثرہ افراد کے رابطے میں آنے کے بعد قرنطینہ میں بھیجے جانے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔صوبہ جموں جہاں صورتحال ابھی قابو میں ہے، میں اتوار کو آٹھویں دن بھی لاک ڈاؤن رہا۔ ۔
جموں شہر اور صوبے کے دیگر تمام ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں سڑکیں سنسان نظر آرہی ہیں اور لوگ اپنے گھروں تک ہی محدود رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔گذشتہ برس 31 اکتوبر کو جموں وکشمیر سے الگ ہوکر ایک علیحدہ یونین ٹریٹری بننے والے لداخ میں بھی صورتحال تیزی سے بہتر ہورہی ہے اور اب تک سامنے آنے والے 13 مثبت کیسز میں سے تین مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں جنہیں آئسولیشن وارڈوں سے قرنطینہ میں بھیجا گیا ہے۔ اس یونین ٹریٹری میں بھی لاک ڈائون 22 مارچ سے لگاتار جاری ہے۔
ادھر وادی میں کورونا وائرس کے مہلوکین اور متاثرین کی تعداد میں تشویشناک اضافے کی وجہ سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ سری نگر کے علاوہ تمام ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں سناٹا چھایا ہوا ہے اور سڑکیں ویران نظر آرہی ہیں۔ اکثر جگہوں پر لازمی اشیاء جیسے کریانہ، پھل، سبزی اور دودھ کی دکانیں بھی بند ہیں۔
یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار جس نے اتوار کی صبح شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، نے بتایا کہ ٹی آر سی سے ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ تک کا حصہ جو ہر اتوار کو ‘سنڈے مارکیٹ’ کے سبب گاہکوں سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا، میں کہیں کہیں ہی کوئی راہگیر چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز بالخصوص جموں وکشمیر پولیس نے شہر میں جگہ جگہ پر ناکے بٹھائے ہیں جہاں ہر آنے والے کو پوچھ گچھ کے بعد ہی آگے جانے دیا جاتا ہے۔
شہر کی اکثر سڑکیں گذشتہ گیارہ دنوں سے سیل ہی ہیں۔نامہ نگار کے مطابق شہریوں کی شکایت ہے کہ ضلع انتظامیہ سری نگر نے ان سے راشن اور گیس گھروں تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جہاں گیس ایجنسی والے گیس لانے سے انکار کررہے ہیں وہیں چاول کی ہوم ڈیلیوری کے لئے بڑی رقم طلب کی جارہی ہے۔ شہریوں کی شکایت ہے کہ انتظامیہ کے وعدے اب تک سراب ہی ثابت ہوئے ہیں۔
وادی کے تمام ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹروں سے بھی مکمل لاک ڈائون کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں کی شکایت ہے کہ جموں وکشمیر پولیس کے اہلکار لازمی اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں کو بھی بند کرارہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ایسے علاقوں میں پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وادی کے ضلع و تحصیل صدر مقامات میں بھی پابندیاں جاری ہیں اور لوگوں کو گھروں میں میں بند رکھنے کے لئے دفعہ 144 نافذ ہے۔
لوگوں کو گھروں میں ہی بیٹھنے اور دیگر احتیاطی تدابیر اپنانے کے لئے پولیس کی گاڑیاں دن بھر مختلف علاقوں کا دورہ کرکے لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے اعلانات کررہی ہیں۔ کئی دیہات میں نوجوان رضاکارانہ طور پر اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے مساجد میں نصب لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے لوگوں سے احتیاطی تدابیر کرنے کی اپیلیں کررہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے جاری لاک ڈائون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اب تک اس سلسلے میں سینکڑوں افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا ہے اور درجنوں دکانوں اور گاڑیوں کو بھی ضبط کیا گیا ہے۔
لوگوں کا الزام ہے کہ سڑکوں پر تعینات جموں وکشمیر پولیس اہلکار لاک ڈائون اور پابندیوں کے نام پر لوگوں کے ساتھ زیادتی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں اور بلا پوچھ تاچھ کے مجبوری کے عالم میں گھر سے باہر قدم رکھنے والوں اور لازمی خدمات محکموں کے ملازموں کو بھی زد وکوب کیا جارہا ہے۔
حکومتی ترجمان روہت کنسل نے یو این آئی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جاری لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے سڑکوں پر تعینات قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ‘ناقابل قبول رویے’ کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا اور مرتکبین کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ دراصل یہاں انتظامیہ کے پاس اس وائرس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے ضروری انتظامات و ساز وسامان کی کمی جو انہیں لوگوں کے ساتھ زیادتی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ خود ہی گھروں میں بیٹھے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن بحالت مجبوری اگر کوئی گھر سے باہر نکلے تو اس کو بلا کسی پوچھ تاچھ کے زد کوب کرنے کا بھی ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔
ادھر حکومت نے لوگوں کو دو مہینوں کا راشن فراہم کرنا شروع کیا ہے اور تمام راشن دکانوں کو شام دیر گئے تک کھلے رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ راشن کی تقسیم کے دوران یہ یقینی بنایا جارہا ہے کہ کہیں پر لوگوں کا رش نہ لگے۔
دریں اثنا کورونا وائرس کے خوف وخطرات کے پیش نظر سیاسی و سماجی و پیشہ ور حلقوں کی طرف سے پُرزور مطالبوں کے باوصف جموں و کشمیر میں فور جی موبائل انٹرنیٹ خدمات پر پابندی ہنوز جاری ہے جس کے باعث طللبا و دیگر پیشہ ور لوگوں کو گھروں میں ہی کام کرنے کے احکامات نقش بر آب ثابت ہورہے ہیں۔