ہفتہ , 20 اپریل 2024

مکتب یا مطبخ

تحریر: ابو تمیم الاحسان

بچپن سے ہی حضورﷺ کی یہ حدیث اپنے بزرگوں، مشفق والدین اور معزز اساتذہ کرام سے سنتے آئے ہیں کہ الحکمة ضالة المومن خذوھا حیث وجدتموھا "حکمت یعنی علم و فضل، عقل و دانش اور موعظة کی باتیں مومن کی گمشدہ میراث ہیں جہاں سے ملیں، ان کے حصول میں تاخیر نہیں کرنی چاہیٸے۔” اسی طرح علامہ اقبالؒ کا شعر بھی اس موقع پر رہ رہ کر ذہن میں آرہا ہے۔
لو جان بیچ کر بھی جو علم و ہنر ملے
جہاں ملے، جس سے ملے، جس قدر ملے
گذشتہ ایک ڈیڑھ دہاٸی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب تعلیم اور علم و فضل جیسی نعمتیں، جو عطیہ خداوندی اور مسلم و مومن کی میراث قرار دی گٸیں تھیں، وہ بھی مساٸل لا ینحل کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں جبکہ کرونا نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک بلکہ ترقی پذیر ممالک کی صف میں بھی سب سے آخری ملک پاکستان میں جہاں بنیادی مسٸلہ راشن اور امداد کی تقسیم کا ہے، وہیں دیگر معاملاتِ زندگی کو مدنظر کھتے ہوئے دوسرا بڑا مسٸلہ تعلیم کی تقسیم کا بھی ہے، لیکن بایں ہمہ اس بات کو بھی مت بھولیں کہ کچھ مساٸل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں، جن کے چنگل سے آزادی بظاہر ناممکن محسوس ہوتی ہے، کیونکہ وہ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اور اپنے پیدا کردہ مسٸلے کو بھی ہمارے کچھ نامعقول دوست حقیقت کا روپ دے کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کی مثال مَیں اس طرح دوں گا کہ آپ اپنے گھر کی صفاٸی کرنے کے لٸے اپنے گھر کی گندگی صاف کرکے اسے پھر سے اپنے دروازے کے سامنے رکھ دیں تو گندگی کی بدبو آپ کے گھر تک بدستور آتی رہے گی، لیکن اگر اسے کوڑا کرکٹ کی متعین کردہ جگہ، جہاں سے خاکروب وغیرہ صفاٸی کرنے کے بعد لے جاتے ہوں، وہاں ڈالیں گے تو آپ بدبو اور پریشانی دونوں سے بچ سکتے ہیں۔ اپنے پیدا کردہ مساٸل میں سے ایک سب سے بڑا مسٸلہ اپنے بچوں کی تعلیم کا ہے۔ آئے روز الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا پر بچوں کی تعلیم کے مساٸل پر بحث ہوتی ہے اور اِن دِنوں پیش آنے والے تعلیمی مساٸل میں سب سے بڑا مسٸلہ بچوں کی تعلیم اور سکولز کی فیس کا ہے۔ گورنمنٹ ادارے تو چونکہ انتہاٸی منظم اور نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں یا یوں کہیں کہ زبردستی پابند کٸے جاتے ہیں تو کرونا کے پھیلنے کے خطرات کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے جہاں دیگر محکموں میں چھٹیاں دیں ہیں، وہیں محکمہ تعلیم کو بھی چھٹیاں دے دیں۔ اب گورنمنٹ ادارے میں پڑھنے والے بچوں اور ان کے والدین کے لٸے یہ چھٹیاں پریشانی نہیں بلکہ راحت کا باعث ہیں، کیونکہ بچے اپنے والدین کے ساتھ گھر پر کوالٹی ٹاٸم گزار سکیں گے اور جن بچوں کے والدین تعلیمی لحاظ سے زیادہ فکر مند ہوں گے، وہ اپنے بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ از خود تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے پر برانگیختہ بھی کریں گے اور آمادہ بھی۔

لیکن آپ کو سن کر یقیناً تعجب ہوگا، جہاں ایک طبقے کے لٸے یہ چھٹیاں خوشی کا باعث تھیں، وہی یہ چھٹیاں پراٸیویٹ ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں، والدین حتیٰ کہ اساتذہ کے لٸے بھی دردِ سر بن گٸیں ہیں، کیونکہ لاک ڈاٸون کی وجہ سے جہاں ملکی معیشت زمیں بوس ہوٸی، وہیں پر دکاندار، کاروباری حضرات، دیہاڑی دار غرضیکہ ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ اب پراٸیویٹ سکولز مالکان جو چھٹیوں میں بھی بھاری بھرکم فیسز لینے کے عادی تھے، انہوں نے حسبِ سابق فیسز کا مطالبہ کر دیا ہے، جبکہ دوسری طرف والدین کام و کاروبار بند ہونے کی وجہ سے فیس معافی کی دھاٸیاں دے رہے ہیں، لیکن پاکستانی قوم کی بھلا کب سنی گٸ تھی، جو اب یہ توقع رکھی جائے۔؟؟ پراٸیویٹ سکولز مالکان نے فیسوں میں بیس فیصد کمی کے ساتھ فیسز جمع کروانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا، لیکن سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ والدین بیس فیصد کمی کے ساتھ بھی فیسز کیسے ادا کریں، جبکہ جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔۔۔۔۔

اب یہاں سے سوچ کا زاویہ تھوڑا سا تبدیل کریں اور غیر جانبدار ہو کر گورنمنٹ سکولز اور پراٸیویٹ سکولز کا مختصر سا تقابل کریں گے تو اپنے پیدا کردہ تعلیمی مسٸلے سے بخوبی واقف ہوسکیں گے اور امید کرتا ہوں کہ پاکستانی ہونے کی حیثیث سے اس کا مثبت حل نکالنے کی کوشش کریں گے، کیونکہ قومیں وہی کامیاب ہوتی ہیں، جو تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح اور ٹیبل ڈسکشن کے ذریعے اپنے مساٸل سے آگاہ ہوسکیں۔۔۔۔ مُسَلَّم ہے یہ بات کہ گورنمنٹ سکولز میں پراٸیویٹ سکولز کی بنسبت سہولیات کی کمی ہوتی ہے، لیکن اگر گورنمنٹ تھوڑی سی مزید توجہ دے تو تقریباً تمام سہولیات کا وجود سرکاری اداروں میں بھی ممکن ہے۔ سب سے اہم چیز ہے تعلیم اور تعلیمی لحاظ سے گورنمنٹ سکول و کالجز کا سٹاف پراٸیویٹ سکولز کی بنسبت ہاٸی کوالیفاٸیڈ ہوتا ہے، جو بخوبی اپنے فراٸض و ذمہ داری سے واقف ہوتا ہے۔ مانا کہ کمی کوتاہی ہر انسان میں ہوتی ہے اور یہ فطری چیز ہے، لیکن قوم کے بچوں کو ملک و ملت کے لٸے کارآمد بنانا تمام کا مشترکہ مقصد ہوتا ہے۔

اب جبکہ سٹاف بھی کوالیفاٸیڈ ہے، سکول میں اساتذہ کی حاضری بھی باٸیومیٹرک ہے، وردی مفت ہے، کتابیں مفت ہیں، اساتذہ مشفق و مہربان ہیں، رزلٹ بِلو بورڈ آنے پر اساتذہ کی معطلی اور دیگر سزاٸوں کی ننگی تلوار بھی سر پر منڈلا رہی ہے، بچوں کی ذہنی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے طلباء کو تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، طلباء کو معاشرے کے لٸے کار آمد بنانے کی لگن بھی سر پر سوار ہو۔ ان سب چیزوں کے بعد ایسی کیا چیز ہے، جو والدین کو ان کے بچے پراٸیویٹ سکولز میں داخل کروانے پر مجبور کرتی ہے اور اپنے زندگی کے مساٸل میں ایک اور مسٸلے کا بلاوجہ اضافہ کر لیتے ہیں۔؟ ایسی کیا بات ہے کہ والدین اپنی آمدن کا نصف سے زاٸد صرف بچوں کی تعلیم پر جھونک دیتے ہیں اور سرکاری اداروں پر پراٸیویٹ اداروں کو ترجیح دیتے ہیں۔؟ آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ والدین اپنے بچے کے حصول تعلیم کے لٸے سرکاری سکولز و کالجز کو چھوڑ کر پراٸیویٹ اداروں کا انتخاب کرتے ہیں، لیکن مستقبل میں اپنے اُسی بچے کی ملازمت کے لٸے سرکاری ملازمت اور نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔؟

من حیث القوم ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے روز بروز محروم ہوتے جا رہے ہیں، حالانکہ قرآن پاک میں متعدد مقام پر افلا یشعرون، افلا یتذکرون، افلا یفقھون اور اسی سے ملتے جلتے مضمون کے ذریعے سے سوچ و سمجھ اور شعور کی طرف پیش قدمی کی دعوت دی گٸ ہے اور شعور کی طرف پیش قدمی نہ کرنے والوں کو سخت وعید سناٸی گٸ ہے۔۔۔ حدیث میں ارشاد مبارک ہے کہ یَسِّرُوا ولاتُعَسِّرُوا یعنی دوسروں کے لٸے آسانیاں پیدا کرو۔ تو جہاں دوسروں کے لٸے آسانیاں پیدا کرنے کا حکم ہے، وہاں اپنی ذات کے لٸے تو بطریق اولیٰ آسانیاں تلاش کرنی چاہٸیں، تو اس کٹھن دور میں اپنے بچوں کو پراٸیویٹ اداروں کا عادی بنا کر جہاں آپ گورنمنٹ کے احکامات کی حکم عدولی کر رہے ہیں، وہی اپنے لٸے بھی بے پناہ مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ خدارا خود کو اس پریشانی سے نجات دیں اور بجائے گورنمنٹ کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر پراٸیویٹ اداروں کی صورت میں اس کا حل نکالنے کی بجائے متفق و متحد ہو کر گورنمنٹ سے مطالبہ کریں کہ وہ سرکاری اداروں میں وہ تمام سہولیات و آسانیاں میسر کرے، تاکہ غریب طبقے کو تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے محرومی کا سامنا نا کرنا پڑے۔

اگر ڈیڑھ دہاٸی پیچھے چلے جاٸیں تو خال خال پراٸیویٹ سکولز و کالجز ہی دیکھنے کو ملتے تھے اور سرکاری ادارے ہی تعلیمی معیار کا پیش خیمہ متصور ہوتے تھے، لیکن پراٸیویٹ اداروں کی صورت میں بزنس کی ایسی لت لگی کہ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے معاشرے کو وبا کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب باشعور سمجھدار حتیٰ کہ بعض سرکاری سکولز و کالجز کے اساتذہ بھی اپنے بچوں کو پراٸیویٹ اداروں میں حصول تعلیم پر فخر محسوس کرے نظر آتے ہیں، حالانکہ خود انہوں نے ہی اپنے سرکاری تعلیمی اداروں میں اصلاحات نافذ کرنی تھیں، لیکن الٹی گنگا بہنے لگی اور وہ خود عملی اور غیر ارادی طور اس کا حصہ بن بیٹھے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
بظاہر یہ تحریر پراٸیویٹ اداروں کے خلاف ہے، کیونکہ بیروزگاری کے اس مشکل دور میں بے شمار چولہے عارضی طور پر پراٸیویٹ اداروں کی بدولت ہی جل رہے ہیں، لیکن درحقیقت یہ تحریر پراٸیویٹ ملازمین کے حق میں ہے اور ان چولہوں کے مستقل جلنے کا بہترین حل یہ ہے کہ گورنمنٹ ان تعلیم یافتہ افراد کو بھی روزگار کے دوسرے مواقع میسر کرے، کیونکہ وہ حضرات بھی عزت و احترام کی زندگی گزارنے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں اور یہ حق ان کو ریاست کی طرف سے ملنا چاہیٸے، تاکہ ایسے باشعور،  تعلیم یافتہ افراد ریاست کے باغی اور پراٸیویٹ اداروں سے عزتِ نفس مجروح کروانے کی بجائے ملک و ملت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔۔۔۔

آخر میں یہ سوال ضرور ہوگا کہ اگر چھٹیوں میں پراٸیویٹ سکولز فیسز کا مطالبہ نہ کریں تو کیا پراٸیویٹ سکولز کے مالکان اساتذہ کو گھر سے فیسیں ادا کریں گے۔؟ تو عرض یہ ہے کہ میں بے شمار ایسے پراٸیویٹ اداروں سے بخوبی واقف ہوں، جہاں اولاً تو اساتذہ کی تنخواہ چھٹیوں میں دی ہی نہیں جاتیں اور چھٹیوں میں تنخواہ کی کٹوتی کے حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں اور اگر اساتذہ قیل وقال کریں تو ان کو بلاتاخیر فارغ کر دیا جاتا ہے۔۔۔ اور جو مالکان معاہدے کے تحت ادا کرتے ہیں، وہ بھی آدھی ادا کرتے ہیں تو اس صورت حال میں جبکہ تعلیم بھی بند ہو، مالکان نے پراٸیویٹ اساتذہ کو تنخواہیں بھی ادا نہ کرنی ہوں یا پھر آدھی ادا کرنی ہوں اور ملکی معیشت بھی کرونا وبا کے سبب ڈانواں ڈول ہو تو میرے خیال میں اس صورت میں پراٸیویٹ اداروں کا فیسز کا مطالبہ مناسب نہیں اور سارا سال پراٸیویٹ مالکان تعلیم کے علاوہ کاپیوں، کتابوں، یونیفارم، جوتوں کی مد میں جتنا کماتے ہیں، ان پر اکتفا کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو والدین کو پراٸیویٹ اور سرکاری اداروں میں فرق بخوبی سجھنا چاہیٸے اور اس سے پہلے کہ مزید تاخیر ہو جائے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے حق میں مناسب فیصلے کر لیں۔۔۔۔

اب بھی یقین کامل ہے کہ ایسا ہی ہوگا کہ والدین فیس معافی کے لٸے گڑگڑاتے رہیں گے اور حکومت کی طرف سے فیس معافی کے احکامات ہوا میں اڑا دٸیے جاٸیں گے۔ جیسا کہ گذشتہ سال بھی سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے چھٹیوں میں آدھی فیس کی معافی کا اعلان تو کیا تھا، مگر شاید پراٸیویٹ اداروں کے اونرز کی اپروچ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے چیف جسٹس کے حکم سے زیادہ تھی، اس لٸے تو کجا من کجا۔؟؟ لیکن آخر میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اگر تعلیم روز بروز اسی طرح مہنگی ہوتی رہی، پراٸیویٹ اداروں کی من مانیاں برقرار رہیں اور ریاست سرکاری اداروں میں اپنی بالا دستی اور مضبوطی قاٸم نہ رکھ سکی تو خاکم بدہن وہ دن دور نہیں جب ریاست کے افراد کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا گہ وہ اپنے اہل خانہ اور بال بچوں کو کھانا کھلائیں یا اپنے بچوں کو تعلیم کے لٸے سکول بھیجے، کیونکہ اس کٹھن دور میں ایک عام آدمی دونوں چیزیں افورڈ نہیں کرسکتا تو لازماً وہ مکتب پر مطبخ کو ترجیح دے گا اور اس کی ذمہ دار بلاواسطہ ریاست اور بالواسطہ پراٸیوٹ ادارے ہوں گے۔ اسی لٸے تحریر کا عنوان تھا مکتب یا مطبخ۔ یہ دونوں عربی زبان میں اسم ظرف ہیں، یعنی تعلیم کی جگہ اور کھانے کی جگہ مراد اس سے تعلیم اور کھانا ہے۔۔۔ اگر آپ کے ذہن میں سرکاری اداروں کی سہولیات اور مفت تعلیم کو چھوڑ کر مہنگی تعلیم کی کوٸی معقول وجہ ہو تو مجھے ضرور آگاہ کیجٸے گا، عین ممکن ہے کہ آپ میری رائے میں تبدیلی کا باعث بن سکیں۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …