منگل , 23 اپریل 2024

نیا عراقی وزیراعظم اور امریکہ کو نکال باہر کرنے کا چیلنج

تحریر: سید نعمت اللہ

عراق کے صدر برہم صالح نے 9 اپریل کے دن مصطفی عبداللطیف مشتت جو مصطفی الکاظمی کے نام سے معروف ہیں کو نئے وزیراعظم کے طور پر کابینہ تشکیل دینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ گذشتہ اڑھائی ماہ کے دوران وہ صدر برہم صالح سے یہ حکم نامہ وصول کرنے والے تیسرے شخص ہیں۔ یاد رہے گذشتہ برس 29 نومبر کے دن عراق کے سابق وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ ان کے بعد محمد توفیق علاوی اور عدنان الزرفی دو ایسے شخص تھے جنہیں صدر برہم صالح نے نئی کابینہ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ محمد توفیق علاوی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے جبکہ عدنان الزرفی حتی پارلیمنٹ میں جانے سے پہلے ہی مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہ کر پائے اور اپنے عہدے سے علیحدہ ہو گئے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا مصطفی الکاظمی ان تمام مراحل سے عبور کرتے ہوئے نئی کابینہ تشکیل دے پائیں گے یا وہ بھی محمد توفیق علاوی اور عدنان الزرفی کی طرح آدھے راستے سے ہی واپس لوٹ جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصطفی الکاظمی کی صورتحال اپنے گذشتہ دو ہم منصب افراد سے کافی حد تک بہتر ہے۔ وہ اس وقت پارلیمنٹ میں موجود دو سیاسی جماعتوں ڈیموکریٹک کرد پارٹی اور وطن اتحاد کی حمایت سے برخوردار ہیں۔ دوسری طرف پارلیمنٹ میں اہلسنت اراکین پر مشتمل سب سے بڑے اتحاد القوی اتحاد نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ شیعہ سیاسی جماعتیں بھی ان کی حمایت کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ان کی پوزیشن سابقہ نامزد وزرائے اعظم سے بہتر محسوس کی جا رہی ہے۔ ماضی میں اکثر مین اسٹریم شیعہ جماعتیں عدنان الزرفی کی حمایت سے کترا رہی تھیں جبکہ عراقی صدر برہم صالح پر بھی الزام عائد کر رہی تھیں کہ انہوں نے عدنان الزرفی کو انہیں اعتماد میں لئے بغیر نامزد وزیراعظم مقرر کیا ہے۔ لیکن اب معروف شیعہ سیاسی رہنما عمار الحکیم نے صدر برہم صالح کو خط لکھ کر انہیں شیعہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مصطفی الکاظمی کی حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ عمار الحکیم کی سربراہی میں قومی حکمت پارٹی، ہادی العامری کی سربراہی میں فتح پارٹی، نوری مالکی کی سربراہی میں قانون کی حکومت پارٹی اور فالح الفیاض کی سربراہی میں اعطا پارٹی نے مصطفی الکاظمی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

مذکورہ بالا شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصطفی الکاظمی کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ لیکن پارلیمنٹ کی حمایت اور اعتماد حاصل کرنے کیلئے مصطفی الکاظمی کو دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کو درپیش پہلا چیلنج آئندہ کابینہ کی ترکیب ہے۔ ان سے پہلے محمد توفیق علاوی اسی مسئلے کے باعث پارلیمنٹ میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ مصفطی الکاظمی کو ایک طرف اپنی کابینہ میں زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو شریک کرنا پڑے گا جبکہ دوسری طرف بعض جماعتوں کی جانب سے حد سے زیادہ توقعات کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ جماعتیں ماضی میں عوامی احتجاج اور مظاہروں کی آڑ میں حکومت میں زیادہ حصہ پانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ مصطفی الکاظمی کا ماضی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس چیلنج کا بخوبی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ انہیں مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مناسب انداز میں ڈیل کرنے کا کافی تجربہ حاصل ہے۔ درحقیقت مصفطی الکاظمی کو درپیش دوسرا بڑا چیلنج حقیقی چیلنج ہے جو پارلیمنٹ کے فیصلے کی روشنی میں امریکہ کو ملک چھوڑ کر چلے جانے پر راضی کرنا ہے۔

عراق سے امریکہ کا فوجی انخلاء ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ چند دنوں سے امریکہ نے مشکوک قسم کی فوجی سرگرمیاں انجام دے کر ایک خاص فضا قائم کر رکھی ہے اور عراق کے اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف نفسیاتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے۔ امریکہ کے ان اقدامات کا مقصد عراقی حکام کو مرعوب کرنا اور اراکین پارلیمنٹ کو اپنے گذشتہ فیصلے پر نظرثانی پر مجبور کرنا ہے۔ یاد رہے 5 جنوری کے دن عراقی پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے ملک سے امریکہ کے فی الفور انخلا کا بل منظور کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں مصطفی الکاظمی گذشتہ چند سالوں کے دوران ملک کے حساس ادارے کی سربراہی کے دوران امریکیوں سے ڈیل کرنے کا کافی حد تک تجربہ حاصل کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کام ان کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ شیعہ سیاسی جماعتوں نے بھی ان کی اس شرط پر حمایت کا اعلان کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔ اگر مصطفی الکاظمی اس بڑے امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہو گئے تو وہ عراق کے مستقبل میں ایک مضبوط سیاست دان اور سیاسی رہنما بن کر ابھر سکتے ہیں۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …