جمعہ , 19 اپریل 2024

مقبوضہ کشمیر، کورونا وائرس اور طبی سہولیات کا فقدان

رپورٹ: جے اے رضوی

کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد جوں جوں بھارت اور خاص طور پر وادی کشمیر میں بڑھتی چلی جا رہی ہے، تشویش میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، کیونکہ حکومتی دعوؤں کو ایک طرف رکھ کر زمینی حالات بتا رہے ہیں کہ اس وباء سے نمٹنے کے لئے جس پیمانے کے انتظامات کی ضرورت ہے، وہ یہاں موجود نہیں ہیں۔ جموں و کشمیر کا طبی سیکٹر پہلے ہی شدید بحران کا شکار تھا اور یہاں نہ صرف طبی و نیم طبی عملہ کی شدید قلت پائی جا رہی تھی بلکہ ڈھانچہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا اور اللہ نہ کرے کہ اب اگر کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو ہسپتالوں پر مزید بوجھ پڑ جانا طے ہے۔ امریکہ، اٹلی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جب کورونا وائرس کا بحران سنگین ہوا تو وہاں کا ہیلتھ سسٹم بھی جواب دے گیا اور فی الوقت حالت یہ ہے کہ امریکہ میں ملکی سطح پر میڈیکل سٹوروں میں 90 فیصد ادویات اور طبی ساز و سامان ختم ہوچکا ہے، جبکہ ماسک بالکل نایاب ہوچکے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے اب وینٹی لیٹروں کی کمی پڑگئی ہے۔ یہ صورتحال ہر لحاظ سے پریشان کن ہے۔ آنے والے ایام ہمارے لئے بھی انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں۔

شاید اسی لئے بھارتی حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ آنے والے دو ماہ میں ملک کو 50 ہزار وینٹی لیٹروں اور 90 لاکھ سے زیادہ N-95 ماسکوں کی ضرورت پڑے گی۔ اگر انہی تخمینہ جات کا اطلاق جموں و کشمیر پر بھی کیا جائے تو یقینی طور پر آنے والے ایام میں یہاں بھی ایک ہزار کے قریب وینٹی لیٹروں کی ضرورت ہوگی، جبکہ فی الوقت حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں محض 223 وینٹی لیٹر ہیں، جن میں 132 کشمیر اور 91 جموں میں ہیں، جبکہ مزید 400 کے آڈر دیئے گئے ہیں اور وہ بھی جلد ہی ہسپتالوں میں نصب کئے جائیں گے۔ تاہم زمینی سطح پر کشمیر میں صرف 123 وینٹی لیٹر ہی دستیاب ہیں، جن میں97 ہسپتالوں میں آئی سی یو بیڈوں کے ساتھ نصب ہیں جبکہ 24 پورٹیبل ہیں، یعنی انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے اور ان میں بیشتر کریٹیکل کیئر ایمبولینسز میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوا کروڑ کی آبادی والے جموں و کشمیر میں قریب 60 ہزار لوگوں کے لئے ایک وینٹی لیٹر دستیاب ہے۔

کشمیر میں جہاں بانڈی پورہ، شوپیاں اور پلوامہ کے ضلعی ہسپتالوں میں سرے سے ہی کوئی وینٹی لیٹر نہیں ہے، وہیں جموں کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے، جہاں چناب خطہ کے چار اضلاع ریاسی، رام بن، ڈوڈہ اور کشتواڑ کے ضلعی ہسپتالوں میں چند روز قبل تک کوئی وینٹی لیٹر ہی نہیں تھا، لیکن اب ضلعی ہسپتال ڈوڈہ، جسے اب میڈیکل کالج ہسپتال کا درجہ حاصل ہے، میں دو وینٹی لیٹر نصب کئے گئے ہیں۔ اسی طرح پیر پنچال کے دو اضلاع راجوری اور پونچھ میں کوئی وینٹی لیٹر نہیں ہے اور فقط دو کریٹیکل کیئر ایمبولینس گاڑیوں میں پورٹیبل وینٹی لیٹر دستیاب ہیں۔ میڈیکل کالج جموں، سپر سپیشلٹی ہسپتال، گاندھی نگر ہسپتال، ایس ایم جی ایس ہسپتال اور سروال میں گویا کہ چند وینٹی لیٹر نصب ہیں، تاہم ادہمپور، سانبہ اور کٹھوعہ میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا طبی نظام موجودہ وباء سے نمٹنے کے لئے ناکافی ہے اور اس کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

اَپ گریڈیشن اس لئے ضروری ہے، کیونکہ کورونا وائرس سے متاثرہ لوگ عمومی طور چھاتی کے انفیکشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور انتہائی نازک بیماروں کو وینٹی لیٹروں پر ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اوپر خوف طاری کرنے کی بجائے اپنی تیاریوں کے عزم کا اعادہ کرنا چاہیئے، کیونکہ وباء سے نمٹنے کے لئے تیاریاں ہی سب سے بڑا دفاع ہے اور اگر ہم تیاریاں مسلسل بڑھاتے نہ رہیں تو اگر خدا نہ کرے، کل کو اس وباء نے ہمیں بری طرح سے لپیٹ لیا تو ہمارے پاس اس سے لڑنے کے لئے ضروری انتظامات نہیں ہوں گے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اسی ہفتہ میں سرینگر کے ایک بڑے ہسپتال نے ایک نجی رضاکار تنظیم کی جانب سے فراہم کئے گئے 40 لاکھ روپے کے 6 وینٹی لیٹر لینے سے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کی کہ ان کے پاس ان وینٹی لیٹروں کی تنصیب کے لئے جگہ نہیں ہے اور نہ مناسب عملہ و ڈھانچہ میسر ہے۔ اگر صورتحال ایسی ہے تو جو حکومت کے بقول 400 وینٹی لیٹر مزید آرہے ہیں، انہیں کہاں نصب کیا جائے گا اور انہیں چلانے کے لئے طبی و نیم طبی عملہ کہاں سے آئے گا۔

غرض یہ کہ موجودہ وقت روایتی طور چلنے کا نہیں ہے بلکہ یہ وقت ہمیں اختراعی بننے کی دعوت دیتا ہے۔ ہسپتال منتظمین کو اس بحران کا آؤٹ آف بوکس حل نکالنا ہوگا۔ جو کچھ جہاں سے بھی آتا ہے، اس کو واپس نہیں کرنا ہے بلکہ لینا ہے اور یقینی بنانا ہے کہ یہ آلات چل پڑیں، کیونکہ اب ہمارے لئے ایک ایک پل قیمتی ہے اور ہم مزید وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ انسداد ملیریا ادویات دستیاب رکھنا اچھی بات ہے، لیکن وہ اس بیماری کا مستقل علاج نہیں ہے بلکہ تمام تر سہولیات سے لیس انتہائی نگہداشت والے وارڈ اور بیڈز ہی ہمیں اس سے بچانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ وقت کی پکار ہے کہ ہم ہر لمحہ اپنے طبی نظام اور ڈھانچہ کو اپ گریڈ کریں۔ ان ایام میں جتنا اپ گریڈیشن ہو پائے گا، اتنا ہی ہمیں یہ جنگ لڑنے میں آسانی ہی نہیں ہوگی بلکہ وہ ڈھانچہ پھر ہمیں آنے والے وقت میں بھی کام آئے گا۔ اس لئے تمام ہسپتال منتظمین اور انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ روایت سے ہٹ کر سوچیں اور کچھ نیا کریں، کیونکہ یہ وقت روایتی دفتری طوالت میں الجھنے کی ہم کشمیریوں کو قطعاً اجازت نہیں دیتا ہے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …