ہفتہ , 20 اپریل 2024

سعودی عرب کی یمن میں قرنطینہ جنگ بندی

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا تو اتفاق سے میں نمل یونیورسٹی میں اپنے پی ایچ ڈی کے سپروائزر ڈاکٹر ضیاء الحق صاحب کے پاس موجود تھا۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑے سکالر آدمی ہیں۔ انہوں نے کنگ سعود یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور امریکہ میں نوم چومسکی کے شاگرد رہے۔ انہوں نے کہا سعودیوں نے یمنیوں پر حملہ کیا اور پھر ہنسنے لگے کہ یہ سعودی، یہ جنگ لڑیں گے اور وہ بھی یمنیوں سے لڑیں گے۔؟ میری یمنیوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں، مجھے تعجب ہوا۔ وہ کہنے لگے یمنی عرب پٹھان ہیں، خنجر ان کے پیٹ پر لگا ہوتا ہے، لڑائی ہوئی نہیں اور ادھر سے انہوں نے پیٹ چیرا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کسی دور میں مصر بھی یمن آیا تھا، یمنیوں نے عبرت ناک شکست سے دوچار کیا تھا۔ سعودیوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں کہ یمنیوں سے لڑ سکیں۔ مجھے اس پر کافی حیرت ہوئی پھر میں نے سوچا ان کی بہادری اپنی جگہ، مگر آج جنگ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر بیٹھ کر لڑی جاتی ہے، اس کے لیے جدید وسائل فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

بہادر ہونا شخصی لڑائی میں فائدہ مند ہوسکتا ہے، مگر جب افواج لڑتی ہیں تو فیصلہ ٹیکنالوجی ہی کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جب درجنوں ممالک کی سپورٹ بھی حاصل ہو جائے تو فتح کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ آج دیکھتا ہوں تو یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں لگتی کہ کس طرح ننگے دوڑتے حوثیوں نے جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعودیوں کو اپنے عزم و حوصلے سے روکا اور اپنے وطن کا دفاع کیا۔ اگرچہ اس کے لیے انہیں بے تحاشہ قربانیاں دینی پڑیں، لاکھوں بے گناہ اس جنگ کے نتیجے موت کے منہ میں چلے گئے۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود حوثی اس قابل ہیں کہ ان کے میزائل ریاض تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ جب چاہتے ہیں، سعودی تنصیبات کو سینکڑوں کلومیٹر سعودیہ کے اندر نشانہ بناتے ہیں۔ چند دن پہلے ریاض پر ہوئے میزائل حملے نے سعودیوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں کہ میزائل ریاض تک پہنچ چکا تھا اور اس کا نشانہ کوئی بھی اہم حکومتی مرکز ہوسکتا تھا۔ اسے آخری وقت پر سعودی دفاعی نظام نے ٹریس کیا اور گرایا۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے جنگ بندی کی اپیل کی تھی، جس پر سعودی عرب نے دو ہفتوں کے لیے جنگ روکنے کا اعلان کیا۔ محمد البخیتی حوثیوں کے ترجمان ہیں، انہوں جنگ بندی کو بے معنی قرار دیا ہے، جب تک یمن کی ناکہ بندی جاری ہے، تب تک اس طرح کی کسی سرگرمی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم ہر طرح سے سعودی عرب کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ اپنے ڈرونز، میزائلز اور میرین کا استعمال جاری رکھیں گے اور سعودی جہازوں اور ائرپورٹس کو نشانہ بناتے رہیں گے۔ ہم یونی لیٹرل سیز فائر چاہتے ہیں۔ کیا سعودی عرب یمنیوں کی محبت میں جنگ بندی کرنا چاہتا ہے؟ کاش ایسا ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ سعودی عرب کرونا وائرس سے بہت گھبرایا ہوا ہے، جس سے بچنے کے لیے وہ اپنے وسائل اور پوری توجہ اس کے خلاف لگانا چاہتا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں کرونا کی تباہی نے اسے مجبور کر دیا ہے۔ اگر اس نے اس کے خلاف موثر اقدام نہ کیا تو یہ تباہی اس کے ہاں بھی غیر معمولی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جس سے آل سعود کے اقتدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے کا خطرہ ہے۔

سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ وہ ناکہ بندی جاری رکھ کر حوثیوں پر شدید دباو جاری رکھے اور دنیا کو یہ بتائے کہ ہم تو سیز فائر کر رہے ہیں۔ یمنیوں کا سعودی عرب کے بمبوں اور میزائلوں سے بڑا مسئلہ ناکہ بندی ہے۔ اس ناکہ بندی کی وجہ سے وہ پوری دنیا سے کٹ گئے ہیں۔ سعودی عرب کا تیرہ سو ساٹھ کلومیٹر طویل بارڈر یمن کے ساتھ لگتا ہے، وہاں گڑ بڑ ہو تو توجہ بٹی رہتی ہے۔ دنیا کے دہرے معیارات پر تعجب ہوتا ہے۔ تین ماہ پہلے حوثیوں نے بڑے لیول کی سیز فائر آفر کی تھی، جس پر دنیا کی توجہ نہیں گئی، اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ اس کے ذریعے یمن کو جنگ سے نکلنے میں مدد مل سکتی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ناکہ بندی ختم کی تو ایران سے ہتھیار آجائیں گے، اب اس ناکہ بندی کو چھ سال ہو رہے ہیں، اس دوران ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں؟ حوثی تو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے سعودی عرب کی آدھی آئل سپلائی کاٹ دی تھی۔ یمن آنے والے ہر جہاز کو سعودی عرب اور اقوام متحدہ چیک کرتی ہے۔

آخر سعودی عرب نے چودہ دنوں کے لیے ہی جنگ بندی کا اعلان کیوں کیا؟ یمنی تجریہ نگاروں کا خیال ہے کہ دراصل سعودی عرب کرونا سے بچنے کے لیے قرنطینہ کی پرامن مدت چاہتا ہے، تاکہ اس دوران سعودی عرب کی پوری توجہ قرنطینہ پر رہے۔ یہ جنگ بندی یمنیوں کا قتل عام روکنے کے لیے نہیں ہے بلکہ کرونا کے خوف کی وجہ سے ہے۔ جیسے ہی کرونا کا خطرہ ٹلے گا، پہلے سے زیادہ بڑے پیمانے پر یمنی عوام پر حملے شروع ہو جائیں گے۔ سیز فائر کے اعلان کے باوجود سعودی عرب نے بیدا صوبے میں حملہ کیا، جسے یمنی فورسز نے ناکام بنایا ہے۔ جولائی 2019ء کو یمن سے عرب امارات نے اپنی فورسز کو واپس بلا لیا تھا۔ اس سے سعودی عرب کو میدان جنگ میں کافی نقصان ہوا ہے۔ اب تک ایک بات تو بہت واضح ہوچکی ہے کہ سعودی عرب اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی حوثیوں سے جنگ نہیں جیت سکتا۔

کرونا کے حملے نے سعودی عرب کو موقع دیا ہے کہ فیس سیونگ رکھتے ہوئے کرونا کی پناہ میں جنگ بندی کا اعلان کر دے۔ اس سے ظاہری واہ واہ بھی ہو جائے گی اور ایک ایسی جنگ سے بھی نجات مل جائے گی، جو محمد بن سلمان کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے سعودی عرب کے گلے پڑی۔ تیل کی قیمتیں پچھلے تقریباً تیس سال کی کم ترین سطح پر آچکی ہیں۔ دنیا بھر میں تیل کی ڈیمانڈ میں کرونا کی وجہ سے بہت کمی واقع ہو رہی ہے۔ اسی طرح عمرہ بند ہوچکا ہے اور جیسا کہ کہا جا رہا ہے، حج بھی نہیں ہوسکے گا۔ اس سے سعودی عرب کی دباو کا شکار معیشت مزید تباہ ہو جائے گی۔ اس لیے جنگ کے لیے درکار وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں، سعودی حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …