جمعرات , 25 اپریل 2024

پشاور میں شہری سماجی دوری کی ہدایات کو نظرانداز کر رہے ہیں

خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد انتالیس جس میں پشاور سولہ افراد کے ساتھ سرفہرست ہے۔ صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دس گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔

پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس سے متاثرہ اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ چوبیس دنوں کے دوران صوبے میں متاثرہ افراد کے لیے 172 مقامات کو قرنطینہ مراکز قرار دیا گیا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں 22 مراکز میں دو ہزار افراد کو آئیسولیٹ کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں دیگر مریضوں کے ساتھ ساتھ بارہ ڈاکٹر، آٹھ نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے دو اہلکار بھی کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

صوبائی ٹاسک فورس برائے انسداد کووڈ انیس نے پشاور میں وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلنے پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سماجی رابطوں کو کم کرنے کے لیے حکومتی اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں منعقدہ ایک اجلاس میں ایک بار پھر عوام کو غیر ضروری نقل وحرکت سے گریز کرنے اور اپنے گھروں تک محدود رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے بھی خیبر پختونخوا میں کورونا سے متاثرہ افراد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ صورتحال کو مسلسل مانیٹر کر رہے ہیں۔ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے ”جتنے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں متاثرہ افراد کی تعداد اس سے دس گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں کورونا کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کروانے کی صلاحیت کم ہے لیکن حکومت اس میں اضافے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ صوبائی وزیر صحت نے مزید بتایا کہ وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی کم ہے۔

ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ کی آبادی پر مشتمل اس صوبے میں اب تک تین ہزار ٹیسٹ کرائے گئے ہیں۔ کووڈ انیس کے ٹیسٹ کی کمی کے حوالے سے ڈاکٹر محمد عرفان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حکومت کو نجی اور مستند لیبارٹریز کو کورونا ٹیسٹ کرانے کی اجازت دینی چاہیے تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ متاثرہ افراد کا پتہ لگایا جاسکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر کے لوگ کورونا سے لڑ رہے ہیں علاج کے بجائے احتیاطی تدابیر ہی اس سے بچنے کا واحد راستہ ہے

دوسری جانب صوبے میں دیگر ممالک سے مزید افراد پہنچائے جا رہے ہیں۔ ان افراد میں سے 38  افراد کو تفتان (ایران) سے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان گومل میڈیکل کالج کے قرنطینہ مرکز پہنچایا گیا۔ ریپڈ ریسپانس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق گل نے بتایا کہ  ”ان افراد کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے اور ان کے معائنہ کے بعد چودہ دن کے لیے قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔ اسی طرح عرب امارات سے 179 افراد کو پشاور پہنچایا گیا ہے۔ ان کے بارے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پشاور اشفاق خان کا کہنا ہے کہ ان افراد کے ٹیسٹ کے نمونے لینے کے بعد انہیں پشاور کے علاقے دوران پور میں قائم قرنطینہ مرکز میں رکھا جائے گا۔

دریں اثناء پشاور سمیت دیگر علاقوں میں شہری سماجی دوری کی ہدایات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے ان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔  تاجر برادری کے بعض رہنما حکومت پر لاک ڈاؤن میں نرمی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان تاجروں کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے صوبے میں تیرہ لاکھ سے زیادہ لوگ بے روز گاری کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی مدت میں توسیع کردی

کراچی: سعودی عرب نے پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ …