جمعہ , 19 اپریل 2024

کورونا وائرس بھی امریکا و اسرائیل کو تائب کرنے میں ناکام

تحریر : محمد سلمان مہدی

یونائٹد اسٹیٹس آف امریکا اور اسرائیل موجودہ عالمی بحرانی صورتحال میں بھی دیگر ممالک کے خلاف غیر قانونی اقدامات سے باز نہیں آرہے۔ یعنی کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے بعد بھی وہ سدھرنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس کورونا وائرس ٹیسٹ کے لئے فلسطینیوں نے ایک عارضی کلینک بنا رکھا تھا، جہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر طبی عملہ رضاکارانہ خدمات انجام دے رہا تھا۔ البتہ محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کی معاونت سے ایک مسجد میں قائم یہ عارضی طبی مرکز کام کر رہا تھا۔ منگل 14 اپریل کی شب اسرائیل نے اسے ختم کر دیا اور چار رضاکاروں کو گرفتار بھی کرلیا۔ مقبوضہ یروشلم کے مشرقی حصے (مقبوضہ بیت المقدس) پر بھی اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ اس اسرائیلی قبضے کو اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل لاء کے تحت غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔

مقبوضہ یروشلم کے مشرق کے علاقے سلوان میں 40 فلسطینی عربوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی تھی۔ تنظیم آزادی فلسطین و الفتح کے رہنماء صائب عریقات کے مطابق فلسطین (یعنی محمود عباس کی حکومت) نے اسرائیل سے درخواست کی تھی کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے مدد کرے۔ عریقات کے مطابق درخواست کے بعد بجائے مدد کے اسرائیل نے حملے کئے، فلسطینی مارے اور ان کی عمارات مسمار کیں۔ انٹرنیشنل لاء کے تحت پوری دنیا (سوائے امریکا اور چند ایک ممالک کے) پورے یروشلم خواہ و مشرقی ہو یا مغربی ایک مقبوضہ علاقہ مانتی ہے۔ یعنی پوری دنیا کے لئے ان علاقوں میں اسرائیل کی حیثیت ایک غیر قانونی قابض قوت کی ہے۔ یاد رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس سلوان طبی مرکز کے خلاف یہ اسرائیلی کارروائی اس نوعیت کی پہلی کارروائی نہیں تھی، بلکہ 26 مارچ 2020ء کو مقبوضۃ فلسطین کے علاقے غور ال اردن (دریائے اردن کے مغربی کنارے) کے شمال میں اس سے زیادہ بڑی کارروائی کی تھی۔

اسرائیلی یہودیوں کی تنظیم بتسیلم نے اس کارروائی پر رپورٹ جاری کی تھی۔ فوجی جیپ، ایک بلڈوزر اور کرین لگے دو ٹرکوں کے ساتھ اسرائیلی انتظامیہ نے فلسطینی عربوں کے خلاف کارروائی کی۔ فلسطینی وہاں 8 شامیانوں (خیموں) کے لئے مطلوبہ سامان کے ساتھ موجود تھے، ان میں سے دو خیمے و شامیانے عارضی طبی مرکز (فیلڈ کلینک) کے لئے تھے۔ اسے نصب کرنے کے لئے کھمبے، شیٹیں بھی تھیں۔ چار خیموں (شامیانوں) میں ان فلسطینیوں کو عارضی ایمرجنسی طور پر رہائش دینی تھی کہ جنہیں ان کے گھروں سے منتقل کیا گیا تھا۔ دو شامیانے (خیمے) عارضی مساجد کے طور پر استعمال کئے جانے تھے۔ اس کے ساتھ سیمنٹ، ریتی بجری، جنریٹر، بلاکس سمیت بہت سا سامان تھا، جو فرش بنانے، بجلی اور دیگر مقاصد کے لیے جمع کیا گیا تھا۔ کچھ تعمیرات پہلے سے وہاں تھیں۔ اسرائیلی حکام نے آکر سارے سامان پر قبضہ کر لیا، قابل مسمار چیزوں کو توڑ پھوڑ کرکے مسمار کر دیا اور باقی سامان قبضے میں لے کر چلتے بنے۔ یہ دو ایسے واقعات ہیں جو رپورٹ ہوگئے اور یہ ان علاقوں میں ہوئے کہ جہاں فلسطینی انتظامیہ کی حیثیت کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ خود اسرائیل نے اپنے جعلی، ناجائز اور غیر قانونی وجود کو مسلم اور عرب دنیا سے تسلیم کروانے کے لئے اسی فلسطینی انتظامیہ کے ساتھ ہی محدود اور عبوری معاہدے کئے ہیں۔

22 مارچ 2020ء کو محصور فلسطینی غزہ کی پٹی کے علاقے میں کورونا وائرس کے پہلے دو کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ 3 اپریل 2020ء تک وہاں کورونا وائرس کے مریضوں کی کل تعداد 12 تھی۔  آج 16 اپریل 2020ء تک فلسطین میں کورونا وائرس کے مریضوں کی کل تعداد 374 ہوچکی ہے جبکہ کل اموات 2، صحتیاب فلسطینیوں کی تعداد 63 ہے۔ اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 140 ہوچکی ہے۔ ایک طرف یہ نسل پرست اسرائیل ہے، جو فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین پر محکوم بنا کر انہیں طبی سہولیات سے بھی محروم کر رہا ہے۔ انٹرنیشنل لاء کے تحت جو اس پر ذمے داریاں ہیں، اس کو بھی انجام نہیں دے رہا۔ دوسری طرف اسرائیلی محاصرے میں گھرے غزہ کے فلسطینی ہیں، جو اپنی مدد آپ کے تحت اس مہلک عالمی وبا سے نمٹ رہے ہیں۔

ایک طرف امریکا ہے، جو فلسطینیوں کی مدد کرنے والے عالمی اداروں کی امداد میں پہلے ہی کٹوتیاں کرچکا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کی محبت میں عالمی ادارہ یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ فلسطینی مہاجرین کے لئے کام کرنے والے عالمی ادارے (UNRWA) کو دیا جانے والا امریکی چندہ بھی یہودی نسل پرست اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے امریکا نے روک دیا اور اب کورونا وائرس کی شکار دنیا میں عالمی ادارہ صحت کو دیا جانے والا امریکی چندہ بھی نہ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مشکل ترین صورتحال میں بھی غزہ کہ جہاں آدھا دن بغیر بجلی کے فلسطینی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں، یہاں فلسطینی رضاکار، اقوام متحدہ کے ادارے کے تحت چلنے والے اسکولوں کو ڈس انفیکٹ کر رہے ہیں، یعنی کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے اسپرے کر رہے ہیں۔

امریکا کیا کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض جس ایک نیشن اسٹیٹ (یعنی ملک) میں ہیں، وہ امریکا ہے، جہاں 6 لاکھ 44 ہزار سے زائد انسان اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اب تک ساڑھے 28 ہزار سے زائد افراد امریکا میں اس مرض کی وجہ سے مرچکے ہیں۔ ایک طرف تو امریکی حکومت اپنے ہی شہریوں کو اس وبائی مرض سے بچانے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری طرف یہ عالمی ادارہ صحت کو بھی مدد کرنے سے روک رہی ہے۔ اس مشکل صورتحال میں بھی اسرائیل کے مظالم میں امریکا مدد کر رہا ہے۔ فلسطینیوں پر امریکی مظالم کی سرپرستی کر رہا ہے۔   فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرنے والے ملک ایران کے خلاف اسرائیل کی خوشنودی کے لئے امریکا نے پابندیوں میں اضافہ و مزید سختیاں کر دیں ہیں اور اب خلیج فارس میں ایرانی سمندری حدود کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ عراق کی سرزمین پر غیر قانونی فوجی موجودگی سے توجہ ہٹانے کے لئے عراقی حکام کو بلیک میل کر رہا ہے۔

دوسری طرف 12 ہزار 500 سے زائد مریضوں کے ساتھ جعلی ریاست اسرائیل کا عالمی فہرست میں نمبر 18واں ہے اور کورونا وائرس کے باوجود اسرائیل نے الیکشن کروائے۔ یہ بھی کورونا وائرس سے نمٹنے کی بجائے فلسطینیوں کو کورونا وائرس سے مارنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکی حکومت اور اداروں اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر پورے مشرق وسطیٰ میں غیر قانونی مداخلت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ لبنان و شام کے علاقوں پر قبضہ ختم نہیں کر رہا بلکہ لبنان و شام کی حدود میں جاسوسی اور فوجی کارروائیاں بھی کر رہا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد بھی امریکا اور اسرائیل اپنی انسانیت دشمن کارراوئیوں سے باز نہیں آرہے۔ عرب اور خاص طور پر مسلم اقوام پر حملہ آور ہیں۔ یوں تو اسرائیل کا وجود ہی جعلی و غیر قانونی ہے، مگر جو اقوام متحدہ اسے ایک نیشن اسٹیٹ مانتا ہے، وہ بھی اسرائیل کو لبنان و شام کی خود مختاری کی خلاف ورزی پر کوئی سزا دینے میں ناکام ہے۔ اقوام متحدہ یروشلم (بیت المقدس) سے اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ اور نسل پرستانہ یہودی بستیوں کو ختم کروانے میں ناکام ہے۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …