بدھ , 24 اپریل 2024

اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

تحریر: محمود شام

جلسے جلوس، ریلیاں، لاٹھی چارج، آنسو گیس یاد آرہی ہے۔عدلیہ کی آزادی، میڈیا کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ جن اداروں کی آزادی کے لیے ہم نے جدوجہد کی، جیلیں کاٹیں، اس آزمائش کی گھڑی میں ان کی فکر کتنی سطحی ہے۔ مقصد سے خلوص کتنا کم ہے اور جن کے خلاف جدو جہد کرتے تھے، لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی، کرنل جنرل کی یلغار نہیں چلے گی، نوکر شاہی نہیں چلے گی، ستم ظریفی تاریخ کی ملاحظہ ہو کہ واہگہ سے گوادر تک اس وقت ملک پولیس، بیوروکریسی اور فوج ہی سنبھالے ہوئے ہیں۔ 22کروڑ پاکستانی ان کے ہاتھوں میں ہی اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ تو اس وقت کہیں ہے ہی نہیں۔ عدلیہ اور میڈیا کچھ کررہے ہیں مگر وہ زندگی بخش نہیں بلکہ خوف بانٹ رہے ہیں۔

آپ اور میں اپنے گزرے ہوئے ماہ و سال کی عدالت میں ہیں۔ ہمارے اپنے دست و بازو ہمارے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ گناہوں کی راتیں یاد آرہی ہیں۔ پچھتاوے سر اٹھارہے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی نیکی سر زد ہوئی ہو۔ وہ بھی کہیں جھلملا لیتی ہے۔ کیا ہم اس بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، الیکٹرونک میڈیا ڈراتا ہے، للکارتا ہے لیکن اس وقت چاروں صوبوں اور دو اکائیوں میں بہت سے ہم وطن نکلے ہوئے ہیں۔ اپنے وطن کی، انسانوں کی خدمت کے لیے۔ اس وبا کا دبائو دور کرنے کے لیے بہت کچھ کررہے ہیں۔ درد بانٹ رہے ہیں۔ راشن تقسیم کررہے ہیں۔ نوجوان جان کا خطرہ لے کر میدان میں ہیں۔ بی بی سی، سی این این، اپنے ملکوں میں ایسے نئے نئے اقدامات کرنے والوں کی دل میں اترتی کہانیاں تصویروں کے ساتھ سنا رہے ہیں۔ ہم پاکستانی نیکی کے سلسلے میں بانجھ تو نہیں ہیں۔ یہ وقت ہے معمول کی گھسی پٹی سوچ سے نکلنے کا۔ سطحی فکر سے آگے بڑھنے کا۔ وہ جو آج کل کہتے ہیں Out of Boxہونے کا۔

ایک امریکی موسیقار خاتون نے بچوں کو سونے سے پہلے کہانی سنانی شروع کردی ہے۔ ماں باپ دونوں کام کررہے ہیں۔ گھر میں ہی بیٹھے ہیں لیکن انہیں کہانی سنانے کی فرصت نہیں ہے۔ اس خلا کو یہ مہربان خاتون پُر کررہی ہیں۔ ویب سائٹ بنا دی ہے۔ بچے آسانی سے کھول لیتے ہیں۔ایک امریکی شہر کی نرسوں نے جو زیادہ دبائو میں نہیں ہیں، خود چندہ ڈال کر نیویارک کی مصروف ترین نرسوں کے لیے دو وقت کے مفت کھانے کا انتظام کیا ہے۔ ایک ریستوران کو آن لائن پیسے دے دیے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے کھانا پہنچارہا ہے۔

ڈاکٹر دن رات جانیں بچانے میں محو ہیں۔ ان کے گھر بہت دور ہیں۔ پھر بچوں کے متاثر ہونے کا بھی ڈر ہے۔ اس لیے ایک فیس بک کے متمول گروپ نے اسپتالوں کے قریب ایسے اپارٹمنٹوں کا پتا لگا لیا ہے جو خالی ہیں آرام دہ ہیں۔ ان کا کرایہ اس گروپ نے دے دیا ہے۔ ان اپارٹمنٹوں میں ضرورت کی تمام اشیاء فراہم کردی ہیں۔ ڈاکٹر جب بہت زیادہ تھکن محسوس کریں، پیدل ہی پہنچ کر آرام کر لیتے ہیں۔ سبزی، کریانہ اسٹورز کے سامنے قطاریں لگی ہیں۔ بعض ضعیف افراد زیادہ دیر قطار میں نہیں کھڑے ہو سکتے۔ محکمۂ ڈاک کے ایک ٹرک ڈرائیور نے یہ ذمہ داری لے لی ہے۔ وہ ان سے فہرست لے جاتا ہے۔ چیزیں خرید کر پہنچارہا ہے۔

میڈیا ضرورتمندوں اور مخیر انسانوں کے درمیان رابطہ بنا ہوا ہے۔ نامور کھلاڑیوں، گلوکاروں نے بھی ایسی خدمات شروع کر رکھی ہیں۔ گھروں میں محصور خاندانوں کے لیے نئے مزاحیہ پروگرام دکھائے جارہے ہیں۔ فیشن انڈسٹری بھی نئی سوچ لے کر آرہی ہے۔ بند کیے گئے علاقوں کے مکینوں کے لیے کھلے علاقوں کے نوجوان پیزے پہنچا رہے ہیں۔ بعض مقامات پر پولیس آفیسرز ذاتی طور پر محصور لوگوں کے لیے اپنی جیب سے کھانا دے رہے ہیں۔ امریکہ میں ٹائلٹ پیپرز کی مانگ بہت ہے۔ بعض من چلے ان کی مفت فراہمی میں مصروف ہیں۔ محلّے والے اب پڑوسیوں کے بچوں کی سالگرہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ وہ بالکونیوں میں کھڑے ہوکر Happy Birthdayکہتے ہیں تو اس بچے کی ساری مایوسی، سارا دبائو دور ہو جاتا ہے۔

ایک بڑا اور انوکھا کام بڑی کارپوریشنیں کررہی ہیں کہ مختلف علاقوں میں موجود بےروزگاروں کو ایک ایک مہینے کے لیے اجرت پر لے رہی ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف اسپتالوں کے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے دوسرے عملے کے لیے کھانا اور ضرورت کی اشیا دن میں دو وقت پہنچا رہی ہیں۔یہ نیکیاں ہمارے ہاں بھی ہو رہی ہوں گی مگر ہمارا میڈیا انہیں نہیں دکھاتا۔ ہماری فکر پہلے بھی نپی تلی تھی۔ اب اس وبا کے دنوں میں اور بھی محدود ہو گئی ہے۔ ملک کے امیر ترین افراد پہلے بھی اپنے منافع اور دولت کے اضافے کے علاوہ انسانی بھلائی کے لیے کم ہی سوچتے تھے۔ برسوں سے مسلسل کمائے گئے منافع میں سے کچھ فی صد اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے نہیں نکال رہے ہیں۔ کسی بڑے بینک، انشورنس کمپنی یا دوسری کارپوریشنوں کی طرف سے بےروزگاروں، غریبوں، روزانہ اجرت والوں کے لیے کوئی اسکیم سامنے نہیں آرہی ہے۔

ہمارے ماہرینِ معیشت، سابق سیکرٹری، ریٹائرڈ افسر سب کے دلوں اور ذہنوں پر کیا مہر لگ گئی ہے۔ نئی نئی لان لانے والے، نت نئے فیشن والی خوبصورت ڈیزائنرز کوئی دل نشیں پروگرام کیوں نہیں لارہی ہیں۔ راحت فتح علی، ابرار الحق، حدیقہ کیانی، سجاد کہاں ہیں۔ کوئی دل نواز دھنیں لائیں۔ہماری تہذیب تو آٹھ ہزار سال پرانی ہے۔ بہت ابتلائیں دیکھی ہیں اور ہمیشہ نئے نئے انداز، نئی ادائیں، نئے ڈیزائنوں سے مقابلہ کیا ہے۔ صوفیائے کرام کا کلام گواہ ہے۔ نئی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اس کے ذریعے گھروں میں بند ہم وطنوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔

دل بدست آور کہ حج اکبر است

از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

بشکریہ جنگ اخبار

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …