بدھ , 24 اپریل 2024

زکوة فنڈز کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق وفاق و صوبوں سے رپورٹ طلب

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے، کھربوں روپے خرچ ہو چکے اور مریض صرف پانچ ہزار ہیں۔
جی این این کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ازخود نوٹس کیس کی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ محکمہ زکوٰة نے کوئی معلومات نہیں دیں، جواب میں صرف قانون بتایا گیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل خالد خان نے کہا کہ وفاقی حکومت زکوة فنڈ صوبوں کو دیتی ہے۔ صوبائی حکومتیں زکوةمستحقین تک نہیں پہنچاتیں، اس فنڈ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے۔اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں، صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی لیکن تفصیل نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قرنطینہ مراکز میں گرمیوں کیا سہولیات ہوں گی۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ اے سی کی ضرورت ہوئی تو مہیا کریں گے۔اے سی لگانے کا خرچہ معلوم ہے آپ کو ؟جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فائبر کا قرنطینہ بہت جلد گرم ہو جائے گا۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ قرنطینہ مراکز بنانے کی بجائے سکول اور کالجز کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا۔ نئے قرنطینہ مراکز بنانے پر پیسہ کیوں لگایا جارہا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سکولوں کی تجویز اچھی ہے غور کریں گیے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے استفسار کیاکہ آپ کون صاحب ہیں ؟ جاکر سیٹ پر بیٹھیں۔ورلڈ بینک کے پیسے سے یونیسف سے خریداری کا کیا معمہ ہے۔ یہ تو پیسہ ایک ہاتھ سے لیکر دوسرے سے دینے کی بات ہے۔ کسی صوبے اور محکمہ نے شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں دی۔ عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے۔ کھربوں روپے خرچ ہو چکے اور مریض صرف 5 ہزار ہیں، زکوةکے پیسے سے دفتری امور نہیں چلائے جا سکتے، زکوة کا پیسہ بیرون ملک دوروں کے لیے نہیں ہوتا ، افسران کی تنخواہیں بھی زکوٰة فنڈ سے دی جاتی ہیں، زکوٰةفنڈ کا سارا پیسہ ایسے ہی خرچ کرنا ہے تو کیا فائدہ۔کیا زکوة فنڈ سے تنخواہ دینا شرعی طور پر جائز ہے؟کیا زکوة کے پیسے سے انتظامی اخراجات کرنا جائز ہے؟کیا محکمہ زکوة کا بنایاگیا قانون شریعت سے متصادم نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مزارات کا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے لیے ہوتا ہے، مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والے ہیں ، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے، بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے ، مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں ، ڈی جی بیت المال بھی زکوٰة فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰةجمع کی ،مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا ، وفاقی حکومت کو زکوٰةفنڈ کا آڈٹ کروانا چاہیے ، زکوٰةفنڈ کے آڈٹ سے صوبائی خودمختاری متاثر نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جارہے ہیں، قرنطینہ کے لیے ہوٹلز کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا ، تمام ہوٹلز کو قرنطینہ بنانے کاموقع کیوں نہیں دیا گیا ، جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے۔ سیکرٹری صحت تنویر قریشی نے عدالت کو بتایا کہ حاجی کیمپ اور پاک چائینہ سینٹرز میں مفت قرنطینہ سہولت ہے ، حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز نہیں دیکھا، آج ہی دورہ کر کے سہولیات کی فراہمی یقینی بناوں گا۔جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مردان میں سعودی عرب سے آئے شخص نے کورونا پھیلایا، وہ پیناڈول کھا کر ائیرپورٹ سے نکلا اور پوری یونین کونسل بند کرنا پڑی، تفتان کے قرنطینہ میں رہنا بھی ڈرانا خواب تھا۔ حکومت پیسے خرچ کررہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آ رہا۔ چیف جسٹس نے ریمارکاس دیئے کہ سندھ حکومت چھوٹا ساکام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے، کسی کو علم نہیں ہوا سندھ حکومت نے ایک ارب کا راشن بانٹ دیا۔سپریم کورٹ نے زکوة فنڈز کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق وفاق و صوبوں سے رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے اسلامی نظریاتی کونسل اورمفتی تقی عثمانی سے بھی رائے طلب کی کہ زکوة فنڈ انتظامی اخراجات پر کیسے خرچ ہوسکتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی مدت میں توسیع کردی

کراچی: سعودی عرب نے پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ …