جمعہ , 19 اپریل 2024

جموں و کشمیر، سرحدی آبادی کی حالت زار

رپورٹ: جے اے رضوی

منقسم جموں و کشمیر کی سرحدوں پر بھارت و پاک افواج کے مابین گولہ باری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اب دونوں جانب کی سرحدی آبادی اس گولہ باری کی عادی بھی ہوچکی ہے جس کے نتیجہ میں اب تک دونوں اطراف سینکڑوں انسانی جانیں ضائع اور کروڑوں کی املاک تباہ ہوچکی ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصہ سے جس طرح سرحد کے دونوں جانب سے آگ و آہن کی برسات ہورہی ہے اور دونوں جانب بے گناہوں کا خون بہایا گیا، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ تازہ گولہ باری کے نتیجہ میں انسانی جانوں کے اتلاف کے یہ واقعات ایسے وقت پر پیش آئے ہیں جب سرحد کی دونوں جانب لوگ کورونا وائرس سے خود کو بچانے کی خاطر اپنے گھروں کے اندر سمٹ کر رہ گئے ہیں اور انہیں بیرونی دنیا کی کوئی خبر تک نہیں ہے۔ گزشتہ اتوار کو جب کیرن اور پونچھ و راجوری میں سرحدی علاقوں میں کورونا وائرس کے خوف سے پیدا ہوئی خاموشی کو گولوں کی گھن گرج سے توڑا جارہا تھا تو ان علاقوں میں آباد لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کورونا سے بھاگیں یا اُن کے اوپر گرتے ہوئے گولوں سے فرار کریں۔

ایک طرف پوری دنیا میں کورونا وائرس کے قہر سے بچاؤ کے لئے سماجی دوریاں بنائے رکھنے پر زور دیا جارہا ہے تو دوسری جانب ان سرحدی بستیوں کے لوگ عجب شش و پنج میں ہیں کہ وہ کورونا سے بچنے کے لئے دوریاں بنائے رکھیں یا گولہ باری سے بچنے کے لئے ایک دوسرے سے چمٹ کر غاروں میں چھپ جائیں یا پھر اپنے عزیزوں کی خون میں لت پت لاشوں کی آخری رسوم کی ادائیگی کے لئے جمع ہوجائیں۔ کہنے اور لکھنے میں یہ کوئی معمولی معاملہ لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک سنگین انسانی المیہ ہے، جس سے اس وقت جموں و کشمیر کی سرحدی آبادی دوچار ہے۔ سرحدی آبادی کے لئے حقیقی معنوں میں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کیونکہ گھروں میں رہنا خطرے سے خالی نہیں رہا ہے اور باہر جمع ہونے کی موجودہ حالات کے حوالے سے جاری شدہ ہدایات کے مطابق اجازت نہیں ہے۔

لائن آف کنٹرول کی صورتحال سے سماجی دوریوں کا تصور یہاں بالکل فوت ہوچکا ہے کیونکہ موت کا سایہ اس قدر خطرناک ہے کہ لوگ یا تو اپنے مکان کے کسی ایک کمرے میں سمٹ چکے ہیں یا پھر کسی زیر زمین بنکر میں گائے بکریوں کی طرح ٹھوسے جاچکے ہیں۔ میاں، بیوی، بچے اور والدین سب ایک چھوٹے سے تاریک کمرے کے مکین بن چکے ہیں اور یہی کمرہ اب ان کی ساری دنیا بن چکی ہے۔ غور کریں تو انسانی دل اس صورتحال کا تصور کرکے ہی پسیج جاتا ہے لیکن نہ جانے دونوں ممالک کی پالیسیوں پر گزشتہ سات دہائیوں سے غالب ٹکراؤ کی روش کو عالم انسانیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتی ہے۔ اس صورتحال سے سخت دل بھی پسیج جاتے لیکن نہ جانے کیوں انسانیت اور خاصکر اس مظلوم سرحدی آبادی کے لئے ذرا بھی ہمدردی کا جذبہ نظر نہیں آتا ہے۔ پوری دنیا میں جب تمام لوگ کورونا وائرس کے قہر سے بچنے کے جتن کررہے ہیں تو برصغیر کی دونوں ایٹمی قوتیں ایک دوسرے کو سرحدوں پر زیر کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور اس پنجہ آزمائی کے نتیجہ میں شہری آبادی نشانہ بن جاتی ہے اور اسی سول آبادی کے خون سے ان کے انتقام کی پیاس بجھ جاتی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ جمہوری اور فلاحی ریاستوں کے حاکمین کو اس طرح کی سوچ ہرگز زیب نہیں دیتی ہے اور انہیں چاہیئے کہ وہ لوگوں کو حب الوطنی کا مصنوعی چورن کھلانے کی بجائے ان کے حقیقی مسائل کے حل کے لئے کوششیں کریں۔ جموں و کشمیر کی سرحدی آبادی قطعی اس سلوک کی مستحق نہیں ہے جس کا انہیں برسوں سے سامنا ہے۔ اگر دونوں ممالک کو پنجہ آزمائی کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اس کے لئے ہماری سرزمین سے دور کہیں کسی ویرانے میں جنگ کا میدان سجائیں لیکن خدا کے لئے ہم بے بسوں اور بے کسوں کو اپنے انتقام کا شکار نہ بنائیں۔ کورونا قہر کے حالات میں کم از کم اس طرح کی پنجہ آزمائی سے گریز کیا جاتا تو بہتر ہوگا۔ موجودہ حالات میں جبکہ ساری دنیا میں حیات انسانی کی بقاء کے لئے زندگی کی رفتار پر قدغن لگائی گئی ہیں تو سرحدوں پر موجودہ توپوں کے دہانے بند کیوں نہیں کئے جاسکتے ہیں۔

ابھی تک گولہ باری کی وجہ سے جموں سے پونچھ اور مقبوضہ کشمیر کے دیگر سرحدی علاقوں میں روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی گولہ باری کی وجہ سے جہاں سینکڑوں انسانوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں وہائی ہزاروں افراد زخمی اور معذور ہوچکے ہیں جبکہ فائرنگ زون میں آنے والے سرحدی دیہات میں اس وقت تک ہزاروں مویشی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سرحد آبادی نقل مقانی کے لئے کب سے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوچکی ہے۔ اس آبادی میں کوئی اپنے پیارے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے راضی نظر نہیں آتا۔ آخر یہ لوگ جائیں تو جائیں کہاں۔ اس آبادی کو کس چیز کی سزا آئے روز مل رہی ہے۔ متاثرہ خاندان ہر دن فائرنگ کے عمل پر روک اور حکومتوں کے مابین آپسی معاملات بات چیت کے ذریعہ حل ہونے کی امید و دعا بھی کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود 2019ء اگست سے فروری 2020ء تک سرحدی علاقوں میں سیز فائر معاہدہ کی 3479 مرتبہ خلاف ورزی ہوئی ہے جبکہ رواں برس یکم جنوری سے 23 فروری تک کل 54 دنوں میں 646 مرتبہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے دوران ان سرحدی دیہات کے لوگ اب ’’ڈبل لاک ڈاؤن ‘‘میں قید ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر بغیر کسی وجہ کے ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے ایک بڑا غریب طبقہ بری طرح سے متاثر ہورہا ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے ہر دفعہ پاکستانی افواج پر بلا اشتعال فائرنگ کرنے کا الزام عائد کرنے کے ساتھ ساتھ جوابی کارروائی بھی عمل میں لانے کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان علاقوں میں رہائش پذیر عام لوگوں کے درد کو کوئی نہیں سمجھ رہا ہے جو کہ اپنی دوسری نسل کا مستقبل اپنی آنکھوں کے سامنے تاریک ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مختلف رپورٹوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ کچھ عرصہ میں ایل او سی پر روزانہ کی بنیادوں پر فائرنگ کی جارہی ہے اور یہ خونین کھیل ماہ مبارک رمضان میں بھی جاری ہے۔ ان متبرک ایام کے پیش نظر دونوں ممالک کی حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ تمام مسائل آپسی مفاہمت کے ذریعہ حل کر کے لوگوں کو خوف سے نجات دلانے میں اپنا رول ادا کریں اور کم از کم کورونا وائرس کی اس عالمگیر وباء کے دوران سرحدی بستیوں کو سکون سے رہنے دیں کیونکہ وہ ایک طرف کورونا سے بھاگ رہے ہیں اور اب دوسری طرف انہیں مسلسل گولہ باری سے بھی بھاگنا پڑرہا ہے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …