ہفتہ , 20 اپریل 2024

امریکی سرپرستی میں داعش کی واپسی

تحریر: عظیم سبزواری

عراق میں داعش کی نام نہاد خلافت کے خاتمے کے بعد اس دہشت گرد گروہ کے روپوش جتھوں نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور پچھلے تین روز کے دوران مختلف علاقوں میں کئی شدید حملے کیے ہیں۔ زیادہ تر حملے عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے مراکز پر کیے گئے۔ الحشد الشعبی کی چھبیسویں بٹالین کے کمانڈر حیدر الموسوی نے کہا ہے کہ صوبہ کربلاء کے علاقے النخیب پر داعش دہشتگردوں نے حملہ کیا، جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔ داعش نے اب تک کا سب سے شدید حملہ جمعے کی شب صوبہ صلاح الدین میں، شمالی سامراء سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ایک مرکز پر کیا۔ کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اس حملے میں الحشد الشعبی کے پندرہ جوان شہید اور پچیس زخمی ہوئے۔ عراقی ذرائع نے فیلڈ میں موجود عسکری کمانڈروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس خفیہ داعشی جتھے، عوامی رضاکار فورس کے خلاف وسیع حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق داعش کے ہزاروں دہشت گرد عراق کے مغربی، شمالی اور مشرقی صوبوں میں روپوش اور کسی اچھے موقع کی تاک میں ہیں۔ بعض ذرائع نے عراق میں روپوش داعشی دہشت گردوں کی تعداد 6000 کے قریب بتائی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا کورونا وائرس کے خلاف مہم میں مصروف ہے، عراق میں داعش کے خفیہ جتھوں کا دوبارہ سرگرم ہو جانا اور عوامی رضاکار فورس کے خلاف حملوں میں شدت کی وجہ کیا ہے؟ وہ کون سی قوت یا قوتیں ہیں، جو داعش کے خوابیدہ جتھوں کو پھر سے متحرک کر رہی ہیں۔؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے اپنے پچھلے مقالے "عراق میں نئی امریکی سازش” کے ذیل میں لکھا تھا کہ 23 مارچ کو متحدہ عرب امارات میں ہونے والی امریکی فوجی مشقوں کے لیے صحرائی علاقے میں ایک ایسا فرضی شہر بسایا گيا تھا، جو بالکل عراقی شہروں اور خاص طور پر دارالحکومت بغداد سے  ملتا جلتا ہے۔

ان مشقوں میں متحدہ عرب امارات کی فوج کے علاوہ تین ایسے عراقی مسلح گروپ بھی شریک تھے، جن کا اس ملک کی مسلح افواج یا سکیورٹی اداروں سے کوئی تعلق نہیں۔ مشقوں کے دوران اونچی عمارتوں، مساجد اور مقدس مقامات پر ہیلی بورن یا چھاتہ بردار فوج اتارنے کے علاوہ، اسٹریٹ فائٹنگ اور بکتربند گاڑیوں کو آبی راستوں سے گزارنے کے عمل پر زیادہ توجہ دی گئی۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں اس جانب بھی اشارہ کیا گيا ہے کہ ان مشقوں میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے اہلکار بھی امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے فوجیوں کے ساتھ شریک تھے۔ امریکہ جیو پولیٹک وجوہات کی بنا پر عراق میں طویل عرصے تک رہنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس نے مرحلہ وار منصوبہ تیار کیا ہے، جس کا پہلا مرحلہ بظاہر کرپشن کے خلاف ہونے عوامی مظاہرے تھے، جو عراق میں سیاسی تعطل کا باعث بنے۔

تب سے اب تک عراق میں اب تک کوئی مستقل حکومت نہیں ہے اور ملک کا نظام عبوری وزیراعظم کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ حکومت سازی کی دو کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ تیسرے نامزد وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی کابینہ سازی میں مصروف ہیں اور انہیں ابھی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب عراق کو اقتصادی بحران کے ساتھ ساتھ کورونا کا بھی سامنا ہے، جبکہ بغداد کے تحریر اسکوائر پر سینگڑوں مظاہرین اب بھی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں بغداد میں ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی عوامی رضاکار فورس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل ابو مہدی المہندس کو شہید کیا گيا، جس کا مقصد اس سازش کے مقابلے میں عوامی قوتوں کو موبلائز کرنے کا راستہ روکنا اور استقامی محاذ میں خوف ہراس پیدا کرکے ان مختلف کڑیوں کو ایک دوسرے دور کرنا تھا۔

اس دوان ہم عراق کی استقامتی تحریک النجباء کے جاری کردہ بیان کی جانب قارئین کی توجہ دلانا چاہیں گے، جس میں کہا گیا ہے کہ  امریکہ شام میں داعشی دہشت گردوں اور خاص طور پر اس کے اہم کمانڈروں کو عراق منتقل کرنے کے سازش پر عمل کر رہا ہے۔ یہ کام سرحدی علاقوں میں امریکی فوج کی نقل و حرکت کے سائے میں انجام پا رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ داعش نے دس جون 2014ء میں بھی شامی سرزمین سے ہی عراق پر حملہ کیا تھا اور چند روز کے دوران عراق کے صوبے نینوا اور الانبار پر مکمل اور پانچ دیگر صوبوں، دیالہ، کرکوک، صلاح الدین، بغداد اور بابل کے بعض علاقوں میں تسلط قائم کر لیا تھا۔ اس پس منظر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عراق میں امریکہ کا نئی سازش کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہوگيا ہے، جس میں داعشی دہشت گردوں کے زیرزمین جتھوں کو پھر سے متحرک کرکے ایک بار پھر 2014ء جیسی  صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

یہ بھی دیکھیں

روس کے الیکشن میں مداخلت نہ کی جائے: پیوٹن نے امریکا کو خبردار کر دیا

ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ …