ہفتہ , 20 اپریل 2024

ایردوآن عربوں کے ہاتھوں عربوں کو قتل کرانے کے درپے ہیں : ترجمان لیبیائی فوج

لیبیا میں خلیفہ حفتر کے زیر قیادت قومی فوج کے ترجمان احمد المسماری کا کہنا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن عربوں کو ہلاک کرنے کے لیے عربوں کو ہی بھرتی کر رہے ہیں۔ادھر لیبیا کی فوج نے دارالحکومت طرابلس کے جنوب میں واقع علاقے كازيرما اور ہوائی اڈے کے پُل پر کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترکی کی دہشت کے سبب بعض شامی جنگجو لیبیا میں لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترکی کی مداخلت خطر ناک ہے اور اسے روکے جانے کے لیے یہ معاملہ عربوں کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔لییائی فوج کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ انقرہ شامی اجرتی جنگجوؤں کے علاوہ اب تک 2000 ترک عسکری اہل کاروں کو لیبیا بھیج چکا ہے۔ قطر اس وقت ترکی کے مفاد میں الوطیہ فوجی اڈے کو تیار کر رہا ہے۔ المسماری نے باور کرایا کہ لیبیا کی قومی فوج ترکی کی مداخلت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یاد رہے کہ لیبیا کی فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کو کڑی نکتہ چینی کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے لیبیا میں وفاق حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے ملک کو "سامراج” کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے۔ حفتر کے بیان کے جواب میں انقرہ حکومت نے اتوار کے روز کہا کہ اس نے اپنی طاقت کے ذریعے لیبیا میں پیمانوں کو تبدیل کر ڈالا۔ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے ایک مقامی ترک چینل کو دیے گئے بیان میں کہا کہ "لیبیا میں ترکی کے اقدامات نے پیمانوں کو بدل ڈالا”۔ انہوں نے زور دیا کہ "مسئلے کا واحد حل سیاسی حل ہے”۔

ترکی ابھی تک لیبیا کی فوج کے خلاف لڑنے والے وفاق حکومت کے گروپوں کو بڑے پیمانے پر سپورٹ کر رہا ہے۔ اس دوران انقرہ کی جانب سے طرابلس میں مذکورہ گروپوں کو شامی جنگجوؤں کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔ایسے وقت میں جب انقرہ حکومت لیبیا میں سیاسی حل کی بات کر رہی ہے ،،، شام میں انسانی حقوق کے نگراں گروپ المرصد نے اتوار کے روز بتایا کہ لیبیا میں 500 جنگجوؤں کی ایک نئی کھیپ پہنچی ہے۔ المرصد کے مطابق اس طرح لیبیا میں شامی اجرتی جنگجوؤں کی مجموعی تعداد 10100 ہو چکی ہے۔ المرصد نے مزید بتایا کہ ترکی کے عسکری کیمپوں میں تربیت کے لیے پہنچنے والے بھرتی شدہ افراد کی تعداد تقریبا 3400 تک پہنچ گئی ہے۔

یاد رہے کہ ترکی نے رواں سال 19 جنوری کو برلن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس سمجھوتے میں بیرونی ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ لیبیا کے تنازع میں کسی بھی داخلی فریق کی سپورٹ یا ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت روک دیں۔ اس کے باوجود ترکی کی جانب سے لیبیا کو اجرتی جنگجوؤں میں ڈبونے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ جنگجو انقرہ کی حلیف وفاق حکومت کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …