جمعہ , 19 اپریل 2024

ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مظاہرین کے حقوق کی پامالی کا مقدمہ

امریکا میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے ٹرمپ انتظامیہ پر مظاہرین کے حقوق کی پامالی اور انہیں زبردستی منشتر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے حکام کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔امریکا میں انسانی حقوق کی معروف تنظیم ‘امیریکن سول لیبرٹی یونین’ (اے سی ایل یو) نے ٹرمپ انتظامیہ پر مظاہرین کے حقوق کا خیال نہ رکھنے اور انہیں زبردستی منتشر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس ہفتے کے اوائل میں واشنگٹن کے لفاٹے پارک میں حکام نے پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا بے جا استعمال کیا جو پر امن احتجاجی مظاہرین کے حقوق کی صریحا ًخلاف ورزی ہے۔

واشنگٹن کے لفاٹے پارک میں جس وقت بڑی تعداد میں مظاہرین جمع تھے اسی دوران مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے سینٹ جارج چرچ جانا چاہتے تھے اور اس کے لیے حکام نے راستے کو خالی کرانے کا حکام دیا۔ سکیورٹی فورسز نے پر امن احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ حکام نے پیپر بالز سمیت آنسو گیس کے شیل داغے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیم اے سی ایل یو نے بلا اشتعال اس کارروائی کو ”مظاہرین پر مجرمانہ حملے”سے تعبیر کیا ہے۔عدالت میں دائر کردہ درخواست میں امریکا کے اٹارنی جنرل ولیئم بار اور وائٹ ہاؤس کے دیگر سینئر حکام پر غیر قانونی کارروائی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ عرضی میں اس کارروائی کو ” مظاہرین کے ہجوم پر بلا اشتعال مربوط حملہ بتایا گیا ہے۔”

اے سی ایل یو کے قانونی مشیر اسکاٹ مائیکل مین نے اس کارروائی پر اپنے رد عمل میں کہا، ”چونکہ صدر مظاہرین کے خیالات سے متفق نہیں ہیں اس لیے ان پر بے شرم، غیر آئینی اور بلا اشتعال مجرمانہ حملے نے ہمارے ملک کے آئین کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔”

اس روز صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کے سینٹ جارج کا دورہ کیا تھا اور ہاتھ میں بائبل پکڑ تصویر کھنچوائی تھی۔ لیکن چرچ کے پادریوں کے سربراہ نے ٹرمپ کے چرچ کے اس دورے کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے چرچ کی عمارت اور مقدس بائبل کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیا ہے۔

سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف تمام امریکی ریاستوں میں مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان مظاہروں سے نمٹنے کے لیے جو حکمت علی اپنائی اس پر موجودہ اور سابق افسران کی جانب سے شدید تنقید ہوئی ہے۔  خاص طور چرچ جانے کے لیے انہوں نے پرامن مظاہرین کے خلاف جس کارروائی کا حکم دیا، اس پر سبھی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی ہوئی ہے۔

لفاٹے پارک میں کارروائی سے عین قبل انہوں نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے فوج تعینات کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ ان کے اس موقف پر بھی شدید نکتہ چینی ہوئی ہے اور امریکی فوج کے سابق سربراہ مائیک مولین سمیت کئی فوجی جرنیلوں نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔

اس حوالے سے ٹرمپ کی حکومت میں شامل سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ فوج اور سول سوسائٹی کے درمیان خواہ مخواہ محاذ آرائی پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”میں نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ امریکی فوجیوں کو حکم دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کے آئینی حقوق پامال کریں۔” انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ جس انداز سے نسلی  امتیاز کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اس پر انہیں ”غصہ اور حیرت” ہے۔

 

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …