جمعرات , 18 اپریل 2024

تیل سے مالامال ملک کے لئے تیل کے پانچ بحری ٹینکر وں کی امداد کیوں ؟

یہ بات تو واضح ہے کہ ان پانچ ٹینکروں نے وینزویلا کیخلاف امریکی اقتصادی محاصرے کوکم ازکم علامتی اور سیاسی طور پر ہی سہی توڑ کر رکھ دیا ۔وینزویلا پر امریکی اقتصادی پابندیوں کے سبب یہ تیل کا سمندر رکھنے والا ملک اپنا تیل عالمی منڈی میں فروخت نہیں کرسکتااور اس پر مستزاد یہ بھی کہ اندرونی سیاسی چپقلش اور کسی حدتک کرپشن کے سبب بھی ملکی معیشت کافی بری صورتحال سے دوچار ہے
لیکن وینزویلا کی معیشت کو شدید دھچکہ امریکی پابندیوں کے سبب لگا ہے ،یہاں تک کہ یہ ملک ادویات بھی خریدنے میں شدید مشکلات کا سامنا کررہا ہے کیونکہ کوئی بھی بینک ڈیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔تو کیا امریکی اقتصادی پابندیاں کسی بھی ملک کی معیشت کو زبوں حالی سے دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتیں ہیں ؟ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ جس وقت امریکہ اور کسی ملک کی نہیں بنتی تو سب سے پہلا کام امریکہ خفیہ انداز سے یا پھر کھلے لفظوں اس ملک کی معیشت کو نشانہ بناتا ہے ۔
جس کی بنیادی وجہ عالمی معیشتی نظام اور اس نظام پر حکمران مخصوص ممالک اور سسٹم ہے تو دوسری جانب بہت سے ممالک کا سرمایہ امریکی بینکوں میں موجود ہے اور امریکی سخت ظالمانہ قوانین کے تحت وہ اس سرمائے کو کسی بھی وقت فریز کرسکتا ہے یا پھر پابندی لگاسکتا ہے جس کے سبب یہ ممالک اور کمنپیاں مجبور ہیں کہ کسی بھی ملک پر امریکہ کی جانب سے لگی ہوئی پابندیوں کا ساتھ دیں ۔ایران اور وینزویلا کا تعلقات انتہائی درینہ ہیں ،دونوں ممالک امریکہ کے مد مقابل ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کی کوشش میں ہیں ۔
اور وینزویلا سمجھتا ہے کہ ایرانی مہارت اور تجربے کی اسے شدید ضرورت ہے
گرچہ وینزویلا کی طرح بہت سے ممالک ایرانی تجربے کو بہت سے سیکٹرز میں آزمانا چاہتے ہیں جیسے زراعت ،میڈیکل ،نینو ٹیکنالوجی ۔۔لیکن امریکی پابندیوں کے سبب یہ ممالک اس قدر جرات نہیں رکھتے کہ ان تجربوں اور ماہرتوں سے فائدہ اٹھائیں۔لیکن وینزویلا وہ ملک ہے جس نے امریکی پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایران کے ساتھ مختلف سیکٹرز میں تعاون بڑھانا شروع کردیا ،اور یہ تعاون ،تعمیرات سے لیکر زراعت اور صنعت تک وسعت رکھتا ہے ،کہا جاتا ہے ایران وینزویلا کے ساتھ 70سے زیادہ سیکٹر ز میں تعاون کررہا ہے ۔
اس تعاون کے دائرہ کار کو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایرانی ٹائی سون کمپنی نے وینزویلا میں ہزاروں کی تعداد میں اونچی اونچی بلڈنگز کھڑی کیں ہیں جو وینزویلا میں ایرانی تعمیرات کا شہکار سمجھی جاتیں ہیں ۔
صرف ایران خودرو یعنی ایرانی گاڑیاں بنانے والی کمپنی نے گذشتہ سال 16ہزار گاڑیاں وینزویلامیں بنائی تھی ۔
جبکہ ڈیری کی 18فیکٹریاں ،گندم صاف کرنے کی 10فیکٹریوں کے علاوہ سڑکوں پلوں کی تعمیر تک وینزویلا میں خدمات انجام دیا ہے ۔
اس کے علاوہ ایران شام اور وینزویلا تیل سے منسلک بہت سی پروڈیکس میں باہمی تعاون رکھتے ہیں کیونکہ تیل سے منسلک کچھ مواد کی اقسام تینوں ممالک کے پاس تیل کی مخصوص نوعیت کے سبب بہتر انداز سے موجود ہے ۔گرچہ اب بھی یہ تعاون جاری ہے لیکن امریکی پابندیوں کے سبب اس کا دائرہ اور حجم کم ہوکر رہ گیا ہے
امریکی پابندیوں کے اثرات کو جہاں روسی تیل سے منسلک کمپنی بھی برداشت نہ کرسکی اور اپنے تمام سرمائے کو روسی حکومت کو فروخت کرنے پر مجبور ہوئی ۔وہیں پر ایران جو کہ بدترین امریکی پابندیوں کا سامنا کررہا ہے نے اپنے پروجیکٹس اسی طرح قائم و دائم رکھے اور ان پابندیوں کو سامنے کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس وقت بھی ایرانی مختلف سرکاری و پرائیوٹ کمپنیاں وینزویلا میں موجود ہیں ۔
تو پانچ ٹینکر ز کیوں ؟ کیا اور یہ ٹینکرز وینزویلا کے لئے کافی ہیں؟
بات صرف پانچ آئل ٹینکرز کی نہیں وہ تو شاید معیشتی حصار کو توڑنے اور اپنی قوت کا اظہار کرنا تھا کہ جس میں وہ نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ دنیا اس کی مثالیں دینے لگی ہے ۔ایران کی پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو کاسہ لیس بنانا پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ وہ اس کے محتاج بن کر رہیں بلکہ چاہتا ہے کہ وہ خود سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ایرانی اس پالیسی کو مختلف ممالک میں کھلے معنوں دیکھا جاسکتا ہے ۔
بات صرف پانچ دیو پیکر بحری آئل ٹینکرز کی نہیں بلکہ اس تجربے اور مہارت کی جسے اب ایران وینزویلا شفٹ کرچکا ہے اور شاید جلد ہی وینزویلا کو مزید آئل ٹینکر بھیجنے کی نہ صرف ضرورت نہیں رہے گی بلکہ وینزویلا کسی اور ظلم کے شکار ملک کو آئل ٹینکر بھیج سکتا ہے ۔ایرانی آئل کمپنی ستارہ خلیج فارس کے انجنئیرز نے نہ صرف وینزویلا کی بند آئل ریفائنری کو بھی فعال کرنے میں مدد فراہم کرلی ہے بلکہ نئی اور ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کو بنانے میں بھی مدد فراہم کی کہ جس کے لوازمات میں سے کچھ خود ایرانی تخلیق تھے تو کچھ کو اپنے مخصوص زرائع سے ایران نے حاصل کرلیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف وینزویلا کے صدر بلکہ عوام بھی ایرانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
دوسرے الفاظ میں اگر ایرانیوں کے پاس خام آئل کو صاف کرنے اور ریفائنری لگانے کا تجربہ نہ ہوتا تو آج شاید وینزویلا کی طرح دارالحکومت تہران میں دوڑنے والی لاکھوں کاروں کی تعداد چند ہزار تک محدود ہوکر رہ جاتی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ چند سو سے بھی کم رہ جاتیں ۔کہا جارہا ہے کہ بہت سے ایسے شعبے ہیں جس میں یورپ بھی ایرانی تجربے اور مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے خاص کر یورپ کا مشرق حصہ اس کے لئے بیتاب ہے لیکن امریکی پابندیوں کے خوف کے سبب کھلے لفظوں یہ تعاون حاصل نہیں کرپارہے ہیں ،لیکن ا سکے باوجود بہت سے ایسے ممالک ہیں جو بیگ ڈور چینل سے ان مہارتوں اور تجربے سے بہرمند ہورہے ہیں اور ظاہرہے کہ اس قدر شدید پابندیوں کے باجود ایرانی معیشت کی غیر معمولی استقامت کے رازوں میں سے کچھ راز ایسے ہی ہوسکتے ہیں ۔

بشکریہ فوکس ویسٹ اینڈ ساوتھ ایشیا

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …