ہفتہ , 20 اپریل 2024

پاکستان اوربھارت کے 50 فیصد سفارتی عملے واپس

بھارت اور پاکستان نے اپنے اپنے سفارت خانوں کے پچاس فیصد عملے کو کم کرنے کا اس طرح کا پچھلا قدم دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد اٹھایا تھا۔دونوں ملکوں نے یہ قدم سفارتی تعلقات میں کشیدگی اور ایک دوسرے پر جاسوسی کے الزامات اور جوابی الزامات عائد کرنے کے بعدسفارتی عملہ کی تعداد میں کمی کرنے کے حکم کے تحت اٹھایا ہے۔

بھارت نے ایک ہفتہ قبل پاکستان کو نئی دہلی میں اپنے ہائی کمیشن کے عملے میں پچاس فیصد کمی کرنے کے لیے کہا تھا۔ 23 جون کو بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستانی ہائی کمیشن کے ناظم الامور سید حیدرشاہ کو طلب کیا تھا اور پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کی مبینہ بھارت مخالف سرگرمیو ں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سات دنوں کے اندر سفارتی عملے کی تعداد پچاس فیصد کم کردینے کی ہدایت دی تھی۔ اسی فیصلے کے تحت نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے 39 اہلکار اور ان کے اہل خانہ سمیت مجموعی طور پر 143 افراد منگل 30 جون کو واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچ گئے۔

پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسلام آباد میں بھارتی سفارتی عملے پر پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملو ث ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور بھارت کو سفارتی عملے کی تعداد پچاس فیصد کم کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس کے بعد اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے 28 سفارتی اہلکار اور ان کے اہل خانہ منگل کے روز واہگہ بارڈر کے راستے نئی دہلی واپس لوٹ آئے۔

دونوں ملکوں کے ہائی کمیشنوں کے اسٹاف کی تعداد پچاس فیصد کم کرنے کا اس طرح کا قدم اب سے پہلے دسمبر 2001 میں اس وقت اٹھایا گیا تھا جب بھارتی پارلیمان پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔ اس حملے میں پانچ حملہ آورسمیت چودہ افراد مارے گئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کے لیے پاکستان سے سرگرم انتہا پسند تنظیم لشکرطیبہ اور جیش محمد کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔  13 دسمبر کو پیش آئے اس واقعہ کے بعد اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے پاکستان سے 48 گھنٹے کے اندر اپنے پچاس فیصد سفارتی عملہ کو کم کرنے کے لیے کہا تھا۔

Pakistani Rangers - Konflikt Indien Pakistan (AP)

خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد سے ہی دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔  پاکستان نے بھارت کے اس اقدام پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے نئی دہلی سے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا تھا، جس کے بعد بھارت نے بھی اسلام آباد سے اپنے ہائی کمشنر کو بلا لیا۔ فی الحال دونوں ممالک کے ڈپٹی ہائی کمشنر اپنے اپنے ملکوں کے ناظم الامور کے طورپر کام کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارت او رپاکستان کے درمیان باہمی مفاہمت کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ملکوں میں اپنے ہائی کمیشنوں میں 110سفارت کار اور اسٹاف رکھ سکتے ہیں۔ لیکن جوہر ی طاقت رکھنے والے دونوں پڑوسی ایک دوسرے کے سفارتی عملے پر سفارتی ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے، جاسوسی اور ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارت کارجاسوسی اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملو ث تھے اور انہیں رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا ”پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار جن سرگرمیوں میں ملوث تھے وہ سفارتی آداب اور ضابطو ں کے منافی تھے۔ اورپاکستان بھارتی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو ڈرانے دھمکانے کی مسلسل مہم چلا رہا ہے۔ پچھلے دنوں دو اسٹاف کا اغوا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔

یہ اسٹاف 22 جون کو بھارت واپس لوٹ آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ساتھ پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے کی گئی زیادتیو ں کی جو تفصیلات بتائی ہیں وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔”  بھارتی وزار ت خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ویانا کنونشن اور دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات کے حوالے سے معاہدوں کی بھی صریح خلاف ورزی کررہا ہے۔

دوسری طرف پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارتی اہلکاروں کو ناپسندیدہ قرار دینے کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت کا عمل منفی اور پہلے سے طے شدہ ‘میڈیا مہم‘ کا حصہ ہے اور یہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا تسلسل ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستانی سفارتی عملے کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد الزام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …