ہفتہ , 20 اپریل 2024

قانونی مجبوری

تحریر: منصور آفاق

عدلیہ کے متعلق کچھ لکھنا کسی دشوار گزار راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔ بہت احتیاط برتنا پڑتی ہے۔ذرا سی غلطی بھی توہینِ عدالت کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ سو آج کے کالم میں اگر کوئی تشنگی محسوس ہوتو اسے قانونی مجبوری سمجھئے گا۔ میرے لئے جہاں تک ممکن ہے میں اظہارِ خیال کررہا ہوں۔عمران خان کی تمنا ہے کہ لوگوں کو ان کے دروازے پر فوری انصاف ملے مگرخون ِ تمنا کا ذائقہ زبان ہے۔ (اور میں نے اپنے اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا)۔

پاکستان کے عدالتی نظام میں تاخیر کسی المیے سے کم نہیں، انصاف کی فراہمی کے لیے ماڈل کورٹ متعارف کرائے گئے جنہوں نے چند ہفتوں میں بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگرمعاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ایک عرصہ سے خود جج صاحبان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام ریفارمز مانگتا ہے۔اس سلسلے میں سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ کے دور میں کئی انقلابی اقدامات اٹھائے گئے تھے جنہوں نےضلعی سطح کے جوڈیشل سسٹم میں نئی روح پھونک دی تھی۔

امید ہو چلی تھی کہ عدلیہ جلدایک ثمربارادارہ کی شکل اختیار کر لے گی، ان اقدامات نے ایک طرف ضلعی عدلیہ کے ججز میں کام کرنے کا جذبہ پیدا کیا تھا تو دوسری طرف سائلین کو بھی باور کرایا تھاکہ وہ انصاف کے اسٹیج کا اہم ترین جزو ہیں جس کے بغیر نہ کوئی جج ہے نہ وکیل نہ سرکار مگر ان کے جانے کے بعد کئی اچھے اقدامات یا تو رول بیک کر دیے گئے یا انہیں ساکت کردیا گیا۔تقریباً اسی فیصد سائلین کا واسطہ ضلعی عدلیہ سے پڑتا ہے۔ ان کے کیسز اس مرحلہ سے آگے نہیں جا پاتے۔ ضلعی عدلیہ ہی ان کیلئے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ ہوتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں سب سے بری صورتحال ضلعی عدالتوں کی ہے۔

جج کم ہیں اور مقدمات بہت زیادہ۔ صرف پنجاب ہائی کورٹ کا جائزہ لیا جائے تو پچھلے آٹھ سال سے ہر سال حکومت انہیں دو ہزار ججوں کی تنخواہیں اور دوسرے اخراجات کے لئے بجٹ فراہم کرتی ہے مگر پنجاب میں ججز کی تعداد چودہ ساڑھے چودہ سو سے زیادہ کبھی نہیں رہی مگر وکلا کا یہی کہنا ہے کہ حکومت عدلیہ کو مطلوبہ تعاون اور وسائل فراہم نہیں کررہی۔سو انصاف میں تاخیر کی ذمہ دارعدالتیں نہیں حکومت ہے۔ عمران خان نے تو حکومت میں آتے ہی کہا تھا کہ عدلیہ ریفارمز کرے، اس لئے عدلیہ حکومت سے جو بھی چاہے گی، فراہم کیا جائے گا۔

ابھی کچھ دن ہوئے ہیں پنجاب حکومت کو ہائی کورٹ کی طرف سے ایک لیٹر ملا ہے کہ چونکہ ججز کی تعداد کم ہے اور کیسز بہت زیادہ ہیں اس لئے ججز کی عمر کی حد62 سال کردی جائے۔سوال پیدا ہوتا ہے ججز کی عمر کی حد بڑھا دینے سے کس طرح زیادہ کیسز سنے جاسکتے ہیں۔ ججز کی عمر بڑھ جانے کے بعد بھی اتنے ہی جج رہیں گے اور اتنے ہی کیسز۔برسوں سےفوجداری اوردیوانی مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ دیوانی مقدمات تو نسل در نسل چلتے ہیں۔ انصاف کی تلاش میں نکلے سائلین کی خواری معمول کی بات ہے۔ کہتے ہی جرائم میں اضافے کی بنیادی وجہ یہی تاخیر ہے۔ عدالتی ٹرائل کے ذریعے ملزمان کی مجرمان میں تبدیلی کی شرح بہت کم ہے۔

سو سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ سابق چیف جسٹس سابق نثار نے کہا تھا۔’’ہمارا سسٹم عام آدمی کو صحیح معنوں میں ڈلیور نہیں کر پا رہا اور وہ اس کے لئے شرمندہ ہیں‘‘ کہتے ہیں ایک سول جج کے پاس روزانہ 150کیسز آتے ہیں۔یعنی سول جج کو ایک کیس کی سماعت کے لئے2سے 4منٹ ملتے ہیں۔ ایسی صورت میں انصاف کہاں ممکن ہے۔

جب عمران خان کی حکومت آئی تو عدلیہ کے بارے میں عجیب و غریب افواہیں سنائی دی تھیں۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسمبلی میں عدلیہ ریفارمز ایکٹ لایا جارہا ہے۔ جس کے تحت ججز کو کنٹریکٹ پر لگایا جائے گا۔ ججز کےلئے ایک نیا سزا جزا کا نظام ترتیب دیا جارہا ہے جس کے تحت عدلیہ میں بورڈ آف گورنرز بنایا جائے گا۔

عدالتوں کی مینجمنٹ بھی پرائیویٹ کردی جائے گی مگر باقی باتوں کی طرح یہ تمام باتیں بھی ہوا ہو گئیں۔ پولیس ریفارمز کی جب بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ جب تک عدلیہ میں ریفارمز نہیں آتیں پولیس کے نظام میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ عدلیہ کا خیال ہے کہ جوڈیشل ریفارمز پارلیمان کی ترجیح ہی نہیں۔کئی جج صاحبان کہتے ہیں کہ ساری خرابیاں عدالتی نظام میں دوسرے اداروں کی مداخلت کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے مزید شرمندگی کا باعث ہے۔

جب ہم پاکستان ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی قانون کی حکمرانی کے انڈکس میں دیکھتے ہیں تو وہ مسلسل آخری نمبروں میں نظر آتا ہے۔ اس کی حالیہ رپورٹ میں 126ممالک میں پاکستان 117ویں پوزیشن پر ہے زمبابوے سے ذرا نیچے، بولیویا اور افغانستان سے ذرا اوپر۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عدالتی چھٹیاں بھی مقدمات میں تاخیر کی ایک اہم وجہ ہیں۔ پاکستان میں لگ بھگ ڈھائی مہینے تک چھوٹی بڑی تمام عدالتیں بند رہتی ہیں۔ گرمیوں کے مہینوں میں جج صاحبان کام نہیں کرتے۔ یہ روایت برطانوی دور سے چلی آرہی ہے۔

جن دنوں یہاں جج انگریز ہوتے تھے۔ ان کےلئے گرمیوں کے موسم میںعدالتی کام کرنا مشکل ہو جاتا تھا سو وہ دو مہینے کےلئے واپس انگلینڈ چلے جاتے تھے۔کچھ ججز کا خیال ہے کہ پروونشل جسٹس کمیٹی ایک ایسا فورم ہے جس کو بروئے کار لا کر صوبے میں مختلف ڈیپارٹمنٹس کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کو بڑھا کر سائلین کے مسائل کو کم کیا جاسکتا ہےمگرکچھ لوگ کہتے ہیں یہ کمیٹی تو صرف سیر و تفریح کا ذریعہ ہے۔مجموعی طور پر یہی کہا جا سکتا ہے عدالتی نظام کی عمارت کو گرا کر دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ خستہ حال عمارت ہمارے اوپر ہی نہ گر پڑے۔

بشکریہ جیو نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …