ہفتہ , 20 اپریل 2024

کووڈ 19 کے مریضوں کی زندگیاں بچانے والی ادویات کیلئے ڈبلیو ایچ او کی توثیق

رواں سال جون میں برطانوی طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ ہر جگہ آسانی سے دستیاب دوا ڈیکسامیتھاسون نئے کورونا وائرس سے سنگین حد تک بیمار مریضوں کی زندگیاں بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

اب نئے طبی ٹرائلز میں بھی تصدیق کی گئی ہے کہ سستی اور آسانی سے دستیاب اسٹرایئڈ ادویات کووڈ 19 کے قریب المرگ مریضوں کی زندگیاں بچانے میں مدد دے سکتی ہیں۔

اس تصدیق کے بعد اب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو ان ادویات کے استعمال کا پرزور مشورہ دے رہا ہے تاکہ شدید یا سنگین حد تک بیمار افراد اس بیماری کے خلاف جنگ لڑسکیں۔

یہ نئے شواہد عالمی ادارہ صحت کے زیرتحت ہونے والے ٹرائلز میں سامنے آئے جن کا تجزیہ 3 تحقیقی رپورٹس میں کیا گیا جبکہ 4 کنٹروئل ٹرائلز بھی اس عمل کا حصہ تھے۔

عالمی ادار صحت کے مطابق یہ ادویات جن کو کورٹیکواسٹرایئڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، قریب المرگ مریضوں کی موت کا خطرہ 20 فیصد تک کم کردیتی ہیں۔

مجموعی طور پر اموات کا خطرہ ایک تہائی حد تک کم کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایک اور اسٹرایئڈ ہائیڈروکورٹیسون ڈیکسامیتھاسون کے مقابلے میں زیادہ مددگار ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اس میٹا اینالائسز میں شامل اور برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی کے مار جوناتھن اسٹیرن نے بتایا ‘کورٹیکواسٹرایئڈز فی الحال واحد علاج ہے جو کووڈ 19 کے مریضوں میں اموات کی خطرہ کم کرسکتا ہے’۔

انہوں نے کہا ‘ان نتائج سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ ڈاکٹروں کو کووڈ 19 کے بہت زیادہ بیمار افراد کا علاج ان ادویات سے کرنا چاہیے’۔

جون میں برطانوی تحقیق میں ڈیکسامیتھاسون پہلی دوا ثابت ہوئی تھی جو کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد کے بچنے کے امکان کو بڑھانے میں کامیاب رہی تھی۔

اسی طرح کے فائدے اب نئی تحقیقی رپورٹس میں بھی ثابت ہوئے ہیں جس سے ان ماہرین کے اعتماد میں اضافہ ہوگا جو کورٹیکواسٹرایئڈز کو ابتدائی نتائج سے بعد مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کررہے تھے۔

8 ممالک میں ہائیڈروکوروٹیسون کے ٹرائل کا حصہ پیٹسبرگ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈریک سی آگنس نے بتایا ‘برطانیہ کا ریکوری نامی ترائل ایک زبردست ترائل تھا، مگر بیشتر کی نظر میں وہ بس ایک ٹرائل تھا، تو لوگ حیران تھے کہ عام سطح پر اس کے استعمال سے کیا ہوگا’۔

اب نئے نتائج سے دنیا بھر کے طبی ماہرین میں پائی جانے والی یہ غیریقینی کیفیت ختم کرنے میں مدد ملے گی اور مشی گن یونیورسٹی کی ڈاکٹر ہیلی پریسکوٹ کا کہنا تھا ‘جب ہم مختلف ٹرائلز میں فوائد کے تسلسل کو دیکھتے تھے تو یہ بہت پرجوش کردینے والا ہوتا ہے’۔

عالمی ادارہ صحت کے ہیلتھ ایمرجنسیز پروگرام کی سربراہی کرنے والی جینیٹ وی ڈیاز نے کہا ‘وبا کے آغاز میں ہم ہچکچاتے ہوئے اس کے استعمال کے خلاف مشورہ دیتے تھے’۔

انہوں نے کہا کہ مگر عالمی ادارے نے اپنے مشورے کو بدلا ہے جس کی بنیاد مختلف ٹرائلز کے نتائج ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کورٹیکواسٹرایئڈز کا استعمال کرایا جائے تو بدترین منظرنامے میں بھی ہر ایک ہزار مریضوں میں 87 کم اموات ہوں گی۔

تینوں ٹرائلز کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے جن میں دنیا بھر میں آئی سی یو میں زیرعلاج کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

ایک ٹرائل میں برازیل کے 299 مریضوں پر ڈیکسامیتھاسون کے اثرات کا جائزہ لیا، دوسرے میں فرانس میں ہائیڈروکورٹیسون کے لو ڈوز 76 مریضوں کو دیئے گئے جبکہ تیسرے ٹرائل میں امریکا اور 7 دیگر ممالک میں 379 مریضوں میں ہائیڈروکورٹیسون کے استعمال کا تجزیہ کیا گیا۔

یہ تینوں ٹرائلز جون میں برطانوی تحقیق کے نتائج کے بعد روک دیئے گئے تھے۔

ڈاکٹر ڈریک سی آگنس کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان ٹرائلز کو حتمی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ مکمل نہیں ہوئے تھے، مگر ان میں درست سمت کی نشاندہی کی گئی تھی۔

اب عالمی ادارہ صحت نے بھی ان نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے استعمال کا مشورہ دیا ہے مگر تحقیقی رپورٹس میں مختلف سوالات کے جواب نہیں دیئے گئے تھے، جیسے ان مریضوں کا تعین کیسے کیا جائے جن کے لیے یہ ادویات مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی گائیڈلائنز کے مطابق کووڈ 19 کے سنگین حد تک مریضوں کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ انہیں زندگی برقرار رہنے والی تھراپیرز کی ضرورت ہو جبکہ اے آر ڈی ایس کی شدت زیادہ ہو۔

اسی طرح خون میں آکسیجن کی سطح بہت کم ہونا اور بولنے سے قاصر ہوجانے والے افراد کو بھی سنگین حد تک بیمار سمجھا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر ڈریک سی آگنس کے مطابق اگرچہ اسٹیرایئڈز شدید بیمار مریضوں کے لیے مددگار ثابت ہونے ہوسکتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مریض کو ان ادویات کا استعمال کرایا جائے، بیشتر مریضوں کو مدافعتی نظام دبانے والی ادویات کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اسٹیرایئڈز ممکنہ طور پر معمولی یا معتدل حد تک بیمار مریضوں کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوسکتے جبکہ ان کے مضر اثرات کا امکان بھی ہوتا ہے۔

اسٹیرایئڈز ادویات بذات خود وائرس پر حملہ نہیں کرتیں بلکہ وہ جسم کے دفاعی ردعمل کو گھٹاتی ہیں، جو کورونا وائرس کے سنگین مریضوں میں ورم کو قابو سے باہر کردیتا ہے۔

اسٹیرائیڈز ادویات سے مضراثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں جیسے بلڈ شوگر کی سطح بڑھ جانا۔

عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے زور دیا ہے کہ نئی کلینیکل گائیڈلائنز ڈاکٹروں کے لیے ہیں، لوگوں کے لیے نہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان کا کہنا تھا کہ یہ گائیڈلائنز عام افراد کے لیے نہیں اور معتدل حد تک بیمار افراد کو اس طریقہ علاج کا مشورہ نہیں دیا جاسکتا۔

مستقبل میں تحقیقی رپورٹس میں ادویات کے استعمال کے دورانیے اور مقدار کا تعین کیا جائے گا، اس حوالے سے ڈنمارک میں ایک ٹرائل پر پہلے ہی کام شروع ہوچکا ہے، جس میں ان ادویات کے زیادہ اور کم ڈوز کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے گا۔

یہ بھی دیکھیں

ڈائری لکھنے سے ذہنی و مدافعتی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

لندن:کمپیوٹرائزڈ اور اسمارٹ موبائل فون کے دور میں اب اگرچہ ڈائریز لکھنے کا رجحان کم …