جمعہ , 19 اپریل 2024

نیتن یاہو کی امریکا سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال نہ کرنے کی اپیل

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن سے اپیل کی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے کو بحال نہ کریں، جس سے صدر ٹرمپ يکطرفہ طور پر عليحدگی اختيار کر لی تھی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کو ایک بالواسطہ پیغام میں کہا کہ انہیں ایران کے ساتھ سن 2015 کے اس ايٹمی معاہدے کو بحال نہیں کرنا چاہيے جس سے سن 2018 میں صدر ٹرمپ نے يکطرفہ طور پر عليحدگی اختيار کر لی تھی۔

بائیڈن، جو ممکنہ طور پر 20 جنوری کو نئے امریکی صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنے والے ہیں، نے کہا تھا کہ اگر تہران یورینیم کی افزودگی سے متعلق سخت شرائط پر عمل کرتا ہے اور انہيں ‘مزید سخت اور ان ميں توسیعکے ليے‘ اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور عدم استحکام پیدا کرنے والی اپنی دیگر سرگرمیوں پر موثر طریقے سے روک لگاتا ہے تو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کیا جاسکتا ہے۔

سن 2015 میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت دنیا کی کئی بڑی طاقتیں ایران کے متنازعہ ميزائل و جوہری پروگرام کو روک دینے کے بدلے میں اس کے خلاف عائد اقتصادی پابندیاں نرم کرنے پر رضامند ہو گئ تھيں۔

لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یہ کہتے ہوئے اس معاہدے سے امریکا کو علیحدہ کر لیا کہ یہ معاہدہ نہ تو ایران کو جوہری میزائل پروگرام سے روکتا ہے اور نہ ہی عراق، لبنان، شام اور یمن میں جنگجوؤں کی مدد سے روکنے کا پابند بناتا ہے۔ امریکا ایران کی ان سرگرمیوں کو مشرق وسطی میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش قرار دیتا ہے۔

ساتھ اس نیوکلیائی معاہدے کو بحال نہ کریں جسے صدر ٹرمپ نے متروک کردیا تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اتوار کے روز جنوبی اسرائیل میں ایک خطاب کے دوران کہا، ”سابقہ جوہری معاہدے کو بحال نہیں کیا جانا چاہيے ۔ ہمیں ہر حال میں ایک ایسی غیر مصالحانہ پالیسی پر قائم رہنا چاہيے، جس سے ایران کے جوہری ہتھیار تیار نہ کرنے کو یقینی بنایا جا سکے۔”

گوکہ نتین یاہو نے جو بائیڈن کا نام نہیں لیا تاہم اسرائیلی میڈیا نے ان کے اس بیان کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ امریکا کے نئے صدر ایران کے ساتھ اس معاہدے کو بحال نہ کریں۔

سن 2015 میں جب یہ معاہدہ ہوا تھا اس وقت بھی نیتن یاہو نے اس کی سخت مخالفت کی تھی اور اسی سال امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران اسے ‘انتہائی خراب معاہدہ‘ قرار دیا تھا۔

امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود یورپی طاقتیں اس معاہدے کے دیگر فریقین روس اور چین کے ساتھ مل کر اس معاہدے کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔

ایران کا موقف ہے کہ اس کے جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔

دریں اثنا سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے جی ٹوئنٹی سمٹ کے دوران خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ جوبا ئیڈن کی قیادت میں امریکی انتظامیہ مشرق وسطی میں امن و استحکام کے لیے کام کرتی رہے گی۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …