جمعرات , 25 اپریل 2024

ایران کو دھمکی دینا یا مذاکرات پر آمادہ کرنا بہت دشوار ہے

یہ معتبر اور نمایاں امریکی جریدہ (فارن افیئرز) اپنی رپورٹ کے آخر میں دعوی کرتا ہے: چین اور روس دو ہم فکر ممالک ہیں جن کے تعاون کی ایران کو ضرورت ہے تاکہ جدید عالمی نظام میں ایک طاقتور کھلاڑی کی پوزیشن میں آ جائے۔ اگر یہ دو طاقتور ممالک ایران کے ساتھ رہیں، تو ایران کے رہبر [امام خامنہ ای] آسانی سے کہہ سکیں گے کہ دنیا پر امریکی تسلط زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا۔

شاید منتخب صدر کی ٹیم نقصانات کا ازالہ اور تعمیری تعاون کے احیاء کی توقع رکھتے ہیں لیکن وہ بہت جلد جان لے گا کہ ایران بہت زیادہ بدل گیا ہے۔
امریکی جریدے "فارن افیئرز” نے اپنی رپورٹ (1) میں لکھا:

ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چار سالہ دور میں ایک قابل قبول خارجہ پالیسی کی متابعت کے بجائے، ایران کے خلاف صرف دباؤ اور پابندیوں کی پالیسی پر کاربند رہے ہیں۔ امریکہ ٹرمپ کے دور میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے الگ ہوگیا اور کئی مرتبہ ایران پر پابندیاں عائد کردیں۔ شاید منتخب صدر کی ٹیم نقصانات کا ازالہ اور تعمیری تعاون کے احیاء کی توقع رکھتے ہیں لیکن وہ بہت جلد جان لے گا کہ ایران بہت زیادہ بدل گیا ہے۔

ایران گذشتہ چار سالہ دور میں بےکار نہیں رہا اور معاہدے میں امریکہ کی واپسی کا منتظر نہيں رہا بلکہ اس نے اپنے فوجی موقف کو مستحکم بنایا، اور اقتصادی حالات کی بہتری کے لئے چین اور روس کے ساتھ شراکت داری میں مصروف رہا۔ آج چین اور روس ایران کے تیل کی صنعت کے بنیادی ڈھانچوں، بندرگاہوں سے لے کر دفاعی صلاحیتوں کی بہتری میں شریک ہیں۔ اس تعاون کی توسیع کے ہوتے ہوئے، ایران ٹرمپ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کے آگے کم ہی زد پذیر ہے اور کم ہی بائڈن کی منظور نظر مفاہمت کا انتظار کررہا ہے۔

چین کا خلیج فارس میں داخلہ

سنہ 2016ع‍ میں تہران اور بیجنگ نے 25 سالہ تزویری شراکت داری کے لئے بنیاد فراہم کی جو چین کے منصوبے ایک روڈ ایک پٹی (One belt one road) کا حصبہ سمجھی جاتی ہے۔ گوکہ دو ملکوں کے تعلقات پرانے ہیں، یعنی اس زمانے سے تعلق رکھتے ہیں جب ایران شاہراہ ریشم کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ آج ایرانی راہنما چین کو نہ صرف امریکی پابندیوں سے نکلنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں بلکہ اسے مالی، فنی اور عسکری امداد کا سرچشمہ بھی سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ چین امریکی دباؤ کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔

چین دوسرے ممالک کی قومی حکمرانی کا مدافع اور محافظ کے کہلواتا ہے اور اس ہدف کو ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر تنقید کی صورت میں آگے بڑھا رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب ژانگ جون نے لکھا ہے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا "کسی بھی قسم کا کوئی قانونی، سیاسی اور عملی” اثر نہیں ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے بھی بار بار امریکہ کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا ملزم ٹہرایا ہے اور واشنگٹن سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ "ایران کے خلاف اپنے غلط راستے” کو ترک کرے۔ اکتوبر 2020 میں امریکہ نے مزید ایرانی بینکوں کو اپنی پابندیوں کی فہرست میں جگہ دی ہے۔ چین اس امریکی اقدام کے جواب میں، اس کے ایک دن بعد ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا میزبان تھا۔

[فارن افیئرز میگزین کے بقول] چین نے ایران کی تیل، گیس اور پٹروکیمیکل کی صنعتوں کو ترقی دینے نیز ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو بہتر بنانے کے لئے 400 ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی ہے اور چابہار اور جاسک کی بندرگاہوں کو ترقی دینے کے لئے مالی امداد فراہم کررہا ہے۔ یہ دو بندرگاہیں ایک پائپ لائن پراجیکٹ میں بہت اہم اور حیاتی کردار ادا کررہے ہیں جو ایران کو یہ امکان فراہم کرے گی کہ وہ آبنائے ہرمز کو سے ہٹ کر، تیل درآمد کرے۔ ان دو بندرگاہوں کی ترقی سے ایران کی درآمدات پر پابندی لگانے کی امریکی کوششیں مشکلات سے دوچار ہونگی۔

ایران پر امریکی حملے کا سد باب

[فارن افیئرز میگزین کے بقول] یہ منصوبہ شاید امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے میں بھی تذبذب سے دوچار کردے! کیونکہ بیجنگ-تہران معاہدے کا ایک حصہ فوجی تعاون سے تعلق رکھتا ہے۔ جاسک بندرگاہ فی الحال ایک ماہی گیری کی بندرگاہ (fishing harbor) کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ لیکن یہ آبنائے ہرمز سے باہر [آزاد سمندر کے ساحل پر] واقع ہے اور اس کی ترقی اور توسیع کے بعد چین کے بحری جہاز آبنائے ہرمز سے خلیج فارس میں داخل ہونے والے جہازوں نیز وہاں سے نکلنے والے جہازوں کی نگرانی کرسکیں گے۔ چین چابہار کے ہوائی اڈے کی ترقی کے مالی اخراجات پورے کرنے کا بھی پابند ہے اور اس ہوائی اڈے کی تکمیل، ایک فضائی صلاحیت بھی بحری صلاحیت سے آملے گی۔

[فارن افیئرز میگزین کے بقول] چین چابہار میں رازداری سے سننے کا ایک اسٹیشن (Regional eavesdropping station) بنا رہا ہے جہاں سے وہ 3000 میل کے قطر تک کے ٹیلی مواصلات کی سِگْنَلوں کی کھوج لگا سکے گا جبکہ قطر میں واقع امریکی سینٹ کام کا ہراول ہیڈ کوارٹر بھی ان حدود میں آتا ہے۔ ایران کو یہ امید رکھنے کی کا حق ہے کہ چینی ساختہ الیکٹرانک وارفیئر کے آلات اور اوزاروں اور معلوماتی نظامات (Information systems) نیز فضائی دفاعی نظام حاصل کرکے امریکہ اور اس کے حلیفوں کے فضائی حملوں کا راستہ روک لےگا۔

روس کی ثابت قدمی

[فارن افیئرز میگزین کے بقول] روس قدیم الایام سے تہران کے خلاف واشنگٹن کے موقف کو چیلنج کرنے میں آگے آگے تھا۔ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف، نے ماہ ستمبر میں نئی امریکی پابندیوں پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے نامہ نگاروں سے کہا: "ہم امریکی پابندیوں سے نہیں ڈرتے، ہم ان کے عادی ہوگئے ہیں۔ یہ امریکی اقدام کسی بھی صورت میں ہماری پالیسیوں کو متاثر نہیں کرسکتا۔ ایران کے ساتھ ہمارا تعاون متعدد پہلؤوں پر مشتمل ہے ۔۔۔ امریکی صدر کی طرف سے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر ہمارے رویے کو تبدیل نہیں کرسکتا”۔ واشنگٹن نے اکتوبر میں ایک بار پھر ایران کی پابندیوں میں مزید اضافہ کیا تو روسی صدر ولادیمیر پیوتن اور ایران کے صدر حسن روحانی نے علاقے کی سلامتی کو تقویت پہنچانے اور دو طرفہ تجارت اور دو طرفہ اقتصادی تعاون کو وسعت دینے کے سلسلے میں بات چیت کی۔

روس ایران کو اسلحہ فروخت کرنے کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے اور ایران بھی اسلحہ خرید کر خوشنود ہوتا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے خودستایانہ اور پراعتماد انداز سے کہا: "ایران پر اسلحے کی ممانعت کے نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ۔۔۔ اور کسی قسم کی کوئی روک اور بندش بھی نہیں ہے”۔ اقوام متحدہ نے 18 اکتوبر 2020 کو ایران پر سے اسلحے کی خرید و فروخت سے متعلق پابندی اٹھا لی تو صدر روحانی نے فاتحانہ انداز سے کہا: "جس سے چاہیں اسلحہ خرید سکتے ہیں”۔ امریکی دفاعی معلومات ایجنسی (Defense Intelligence Agency) کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق، روسی جنگی طیارے سوخو-30 (SU-30)، تربیتی طیارے یاک 130 (Yakovlev Yak-130)، جنگی ٹینک ٹی-90، ایس-400 طیارہ شکن و میزائل شکن نظام اور باستین ساحلی دفاعی بیٹریاں (Bastion-p Coastal Defense Batteries) ان ہتھیاروں میں شامل ہوسکتی ہیں۔ اس راستے کی واحد رکاوٹ تہران کا دفاعی بجٹ اور ساتھ ہی ماسکو کی طرف سے جنوبی پڑوسی کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیے جانے میں روسیوں کے ممکنہ تحفظات ہیں۔

ظریف نے جولائی 2020 یکجہتی کو وسعت دینے اور دوطرفہ اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں لاؤروف کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی۔ تہران، ستمبر 2001 میں منعقدہ معاہدہ باہمی تعلقات، اور اسلامی جمہوریہ ایران اور روسی وفاق کے تعاون کے اصولوں کے ارتقاء کے درپے ہے۔ دوسری طرف سے روس اپنی فضائیہ اور بحریہ کے لئے ایران میں اڈے قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اس قبل شام میں روس کے ساتھ تعاون کیا ہے۔

چین اور روس کے ساتھ تعلقات کے فوائد

[فارن افیئرز میگزین کے بقول] تہران اس وقت چین اور روس کے ساتھ تعلقات کی پیشرفت کے فوائد کو دیکھ رہا ہے۔ روس نے دسمبر 2019 کے اواخر میں چین اور روس کو خلیج فارس، بحر عمان اور بحر ہند میں بحری سلامتی پٹی کی چار روزہ مشقوں میں شرکت دے دی، (2) اس بحری علاقے کی نگرانی بحرین کے ساحل پر تعینات پانچویں بحری بیڑے کے پاس تھی! بحری مشقوں کے ذریعے چابہار اور اور بحرین میں پانچویں بحری بیڑے کے درمیان مسابقت کو جانچ لیا گیا۔ ستمبر 2020 میں ایرانی بحریہ، قفقاز کے علاقے میں ہونے والی چین-روس مشترکہ بحری فوجی مشقوں میں شریک ہوئی۔

[فارن افیئرز میگزین کے بقول] چین اور روس دونوں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں، بالخصوص امریکہ کی ثانوی پابندیوں (Secondary sanctions) کے حوالے سے جو ان ملکوں کے لئے تکلیف دہ ہیں، جنہوں نے ایران کے خلاف کسی قسم کی پابندیاں نہیں لگائی ہیں۔ چین اور روس نے اگست 2020 میں باہمی تعاون سے امریکہ کے روایتی حلیفوں – بشمول برطانیہ اور فرانس – سمیت سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو قائل کرکے انہیں ایران کے خلاف ٹریگر میکانزم ایکٹویشن (Trigger mechanism activation) اور اقوام متحدہ کی پابندیاں پلٹانے کی مخالفت پر آمادہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے چین اور ہانگ کنگ کے بعض اداروں پر ایران کی جہازرانی کے ساتھ تعاون کی پاداش میں، پابندیاں عائد کیں تو اقوام متحدہ میں روسی نمائندے کے معاون دیمتری بولیانسکی نے بڑی شدت اور حدت کے ساتھ ایک ٹویٹر پیغام میں موقف اختیار کیا کہ "امریکہ کوئی شیۓ نہیں ہے کہ وہ ہم یا دوسروں سے کہتا پھرے کہ ہم کیا کریں یا کیا نہ کریں”۔

[فارن افیئرز میگزین کے بقول] سنہ 2019 میں، بیجنگ میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں چینی اور روسی حکام نے واضح کرکے کہا کہ ان کے ممالک کا مشترکہ ہدف یہ ہے کہ امریکہ کو عالمی طاقت کی موجودہ پوزیشن سے ہٹا دیں۔ وہ دنیا میں ایک چند قطبی نظام (Multi-polar System) قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس نظام کو امریکی تسلط پر منبی عالمی نظام کے متبادل کے طور پر لانا چاہتے ہیں۔ ظریف نے بھی تکمیلی لفاظیوں کے سانچے میں اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھ دیا: "میرا ملک امریکہ کی یک طرفگی اور یک رخی دنیا (Unilateralism) کے قیام کے لئے اس کی کوشش کو مسترد کرتا ہے”۔

کردار اونچا بولتا ہے

بائڈن جانتے ہیں کہ انہیں ایران کے ساتھ مذاکرات کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ بائڈن نے صدارتی امیدوار کے طور پر لکھا: اگر تہران ایٹمی معاہدے کی پیروی کی طرف پلٹ آئے تو "میں بھی اس معاہدے سے جا ملوں گا اور ایک بار پھر سفارتکاری کی نسبت اپنی ذمہ داریوں کا پابند ہوجاؤں گا تاکہ اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر اس معاہدے کو تقویت پہنچائیں اور اس کو مزید وسعت دیں اور ایران کے غیر مستحکم کرنے والے دوسرے اقدامات کا بھی مؤثر انداز سے سد باب کریں!”۔ بہر صورت اگلی امریکی حکومت جانتی ہے کہ خلیج فارس میں ایران کی اہمیت کا انکار ممکن نہیں ہے۔

لیکن نئی امریکی انتظامیہ کو بہت ساری دشواریوں کا سامنا ہے اور بائڈن پر لازم ہے کہ ایرانی راہنماؤں کو قائل کرلیں کہ موجودہ معاہدے کا احیاء – سابقہ معاہدے کی طرح [صدر کی تبدیلی سے] – نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں "کردار اور عمل سب سے زیادہ اہم ہے”؛ علاوہ ازیں پابندیوں کے بےامان دباؤ کے باوجود ایرانی راہنماؤں نے علاقائی تسلط کے حصول اور اپنے نظام کے تحفظ کے سلسلے میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا ہے۔ اگر ہم سوچنا شروع کریں کہ ایرانی راہنما بڑی آسانی سے قبول کریں گے کہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو محدود کریں گے – اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ خلیج فارس کے علاقے میں تمام تر فریق اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے [اور ہتھیاروں کے انبار لگانے] میں مصروف ہیں – تو ایسی سوچ کو قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ بائڈن شاید تہران کو بیجنگ اور ماسکو سے دور کرنا چاہیں، لیکن ایران نہ تو امریکہ کے ساتھ متحد ہونے کے درپے ہے اور نہ ہی اس طرح کے کسی اتحاد کی طرف مائل ہے، چنانچہ – (ایران کو روس اور چین سے دور کرنے کے لئے) – بائڈن کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو وہ ایران کو پیش کریں۔

یہ معتبر اور نمایاں امریکی جریدہ (فارن افیئرز) اپنی رپورٹ کے آخر میں دعوی کرتا ہے: چین اور روس دو ہم فکر ممالک ہیں جن کے تعاون کی ایران کو ضرورت ہے تاکہ جدید عالمی نظام میں ایک طاقتور کھلاڑی کی پوزیشن میں آ جائے۔ اگر یہ دو طاقتور ممالک ایران کے ساتھ رہیں، تو ایران کے رہبر [امام خامنہ ای] آسانی سے کہہ سکیں گے کہ دنیا پر امریکی تسلط زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جیسا کہ انھوں نے پہلے بھی یہ بات کہہ دی ہے۔ ظریف بھی ایران-چین-روس کے نئے محاذ کو تقویت پہنچانے کے لئے ان ممالک میں آمد و رفت کریں اور اطمینان حاصل کرے کہ ایران اس محاذ کے مرکز میں باقی رہے گا۔

…………
1۔ اس رپورٹ کے مندرجات، دعؤوں، اور ممکنہ غلط بیانیوں کا تعلق امریکی جریدے "فارن افیئرز” سے ہے اور اس کے ترجمے کا مقصد ہرگز ان کی تصدیق کے مترادف نہیں ہے۔ بلکہ مقصد قارئین کی معلومات میں اضافہ اور موجودہ عالمی اور علاقائی حالات کا تجزیہ کرنے کی دعوت دینا ہے۔
2. فارن افیئرز کی اس غلط بیانی کے برعکس، ان بحری مشقوں کا میزبان ایرانی بحریہ تھی اور ایران ان مشقوں کا میزبان تھا اور یہ مشقیں ایران کی دعوت پر انجام پائیں۔

یہ بھی دیکھیں

تحریک نینوا کے امین زین العابدین علیہ السلام

(تحریر: مولانا گلزار جعفری) شہر عشق و شغف جسکی گلیوں سے کملی والے سرکار کی …