ہفتہ , 20 اپریل 2024

کوہِ سلیمان سے اعلیٰ معیاری نینوکلے کے وسیع ذخائر دریافت

پاکستان میں ارضیاتی حوالے سے بین الاقوامی اہمیت کے حامل کوہ سلیمان سے اعلیٰ معیار کے نینو گارے (کلے) کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ ان کی بدولت ایک جانب تو خطے میں صاف پانی کے حصول میں مدد ملے گی تو دوسری طرف ایک اہم صنعتی خام مال کا حصول ممکن ہوگا۔

اس ضمن میں برطانیہ کی جامعہ ہڈرسفیلڈ کے ڈاکٹر محمد عثمان غوری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر عثمان نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹٰی ملتان سے ماسٹرز کے بعد یونیورسٹی آف ہڈرسفیلڈ سے ڈاکٹریٹ کی ہے اور اب اسی جامعہ کے شعبہ فارمیسی میں سینیئر ریسرچ فیلو ہیں۔

اس ضمن میں کئ اداروں کے ماہرین کی جانب سے ایک وسیع مطالعہ کیا گیا جس کی تفصیلات نیچر سائنٹفک رپورٹس میں شائع ہوئی ہیں۔ تحقیق میں کوہِ سلیمان کے خام گارے سے ایک اہم نینو معدن، مونٹ موریلونائٹ کے ماحول دوست اور پائیدار حصول کے کئی تجربات کئے گئے۔ حاصل شدہ نتائج سے خوشخبری ملی ہے کہ خام مال سے مونٹ موریلونائٹ کا حصول نہ صرف تمام ضروری معیارات عین مطابق ہےبلکہ کم خرچ طریقے سے اس خزانے کو تجارتی پیمانے پر بھی نکالا جاسکتا ہے جس سے کئی معاشی ثمرات حاصل ہوسکتے ہیں۔

مونٹ موریلونائٹ کیا ہے؟

مونٹ موریلونائٹ قدرتی طور پر نینو مٹیریل گارہ ( نینوکلے) ہے جو کئ خطوں میں عام پایا جاتا ہے۔ اس میں ایلومینیئم آکسائیڈ کی دو تہوں کے درمیان سلیکا کسی سینڈوچ کی طرح موجود ہوتا ہے ۔ یہ مادہ کئی طرح کے طبعی اور کیمیائی خواص سے مالامال ہے۔ یہ نمی جذب کرتا ہے، مسام دار ہے، زہرربا بھی ہے اور بیکٹیریا کش بھی، کہیں یہ لچکدار ہے تو کہیں لیس دار اور وقت کے ساتھ گاڑھا بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کے پاس علم نہیں تو اس سے صرف پیالے اور کوزے بنائیں اور اگر ٹیکنالوجی ہے تواعلیٰ صنعت میں استعمال کرکے بہت دولت کمائیں کیونکہ پانی صاف کرنے، طب، صنعت، الیکٹرانکس اور کاسمیٹکس میں اسے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔

بہت بعض ماہرین کا یہاں تک کہتے ہیں کہ زمین پر زندگی کی ابتدا کے لیے جو تعامل (ری ایکشن) ضروری تھے ان کی تشکیل  میں بھی اسی نینو مٹی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اب یہی معدن میں پاکستان میں ترقی کی روح بھی پھونک سکتی ہے۔

ایک روپیہ نوے پیسے فی گرام!

جنوبی پنجاب کے سلسلہ کوہِ سلیمان سے جمع کئے گئے خام گارے میں مونٹ میریلونائٹ کی مقدار عام طور پر 21 سے 25 فیصد نوٹ کی گئی۔ بعد ازاں خام مٹی کو یونیورسٹی آف ہڈرسفیلڈ کی جدید تجربہ گاہوں میں بین الاقوامی معیارات اور پروٹوکولز کے ساتھ پرکھا گیا۔ اس صبر آزما کام میں مٹی کو چھانا اور پیسا گیا، اسے حرارت دی گئی اور کئی مقام پر خالص مونٹ میریلونائٹ کی مقدار کو نوٹ کیا گیا۔

اس عمل میں ایکسرے ڈفریکشن، اسکیننگ الیکٹرون مائیکرواسکوپی اور ایکس رے اسپیکٹرواسکوپی سمیت کئ طرح کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئیں اوراس کےزبردست ثمرات سامنے آئے۔ چھوٹے پیمانے پر خام گارے سے جو خالص ترین مونٹ موریلونائٹ حاصل کی گئ اس کی مقدار 90 سے 94 فیصد تھی۔ یعنی تمام معیارات کے ساتھ اس اہم اور قیمتی شے کی خالص ترین مقدار کو حاصل کیا جاسکتا ہے جو اس کی تجارتی پیمانے پر تخلیص کا ایک اہم ثبوت بھی ہے۔ اسی مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر پاکستانی خام مٹی کو بڑے (تجارتی یا کمرشل) پیمانے پر خالص بنایا جائے تو اس سے 85 تا 89 فیصد خالص مونٹ موریلونائٹ حاصل ہوسکتی ہے۔

تجربات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ گارے کو پیسنے کا عمل بہت اہم ہے یعنی 20 سے 80 منٹ تک گرائنڈنگ سے فالتو اشیا باہر نکالی جاسکتی ہیں اور قیمتی معدن کی بڑی مقدار کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایک گرام خالص مونٹ موریلونائٹ صرف ایک روپے نوے پیسے میں حاصل کیا جاسکتا ہے جو اس کی بڑے پیمانے پر انتہائی کم لاگت کو ظاہر کرتا ہے۔

ڈاکٹر محمد عثمان غوری نے بتایا کہ یہ منصوبہ برطانیہ کی جانب سے گلوبل چیلنجز ریسرچ فنڈ ( جی سی آرایف) کے تحت شروع کیا گیا جس کے تحت  جدید تحقیق سے ان عالمی مسائل کا حل نکالا جاتا ہے جو کرہ ارض پر ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں ۔ اس ضمن پاکستان جامعات، مختلف وزارتوں اور سرکاری تحقیق اداروں کے علاوہ جامعہ ہڈرسفیلڈ پر مشتمل ایک کنسورشیم بھی بنایا گیا ہے۔ اس کنسورشیم کے تحت پہلے مرحلے میں کئی سطح کے دستی، کم خرچ اور مؤثر واٹر فلٹر بنائے جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ مٹیریئل پانی میں سے بھاری دھاتوں کو جذب کرنے کی جادوئی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اس کے ثمرات بالخصوص جنوبی پنجاب کے علاقوں تک پہنچائے جائیں گے جہاں پینے کا صاف پانی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں۔

ڈاکٹر غوری نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ اراضی صرف اس وجہ سے بنجر ہوچکی ہے کہ اطراف کے پانی میں بھاری دھاتوں کی بہتات ہے جس نے زمین سے زرخیزی چھین لی ہے۔ مونٹ موریلونائٹ سے بنے خاص واٹر فلٹر آج کی خاک اڑاتی زمینوں کو سرسبز بناسکتے ہیں۔ لیکن بات یہی ختم نہیں ہوتی کیونکہ کشمور سے لے کر بہاولپور تک زیرِ زمین پانیوں میں سنکھیا ( آرسینک) کی بڑی مقدار نوٹ کی گئی ہے۔ توقع ہے کہ ایسے فلٹرپانی سے سنکھیا کے جان لیوا زہر کو بھی ختم کرسکیں گے۔

واضح رہے کہ مونٹ موریلو نائٹ پر مبنی ایک سے زائد واٹر فلٹر پر تیزی سے کام بھی جاری ہے۔

پاکستان قارئین کے لیے یہ امر دلچسپی سے بھرپور ہوگا کہ ڈاکٹر محمد عثمان غوری کا جرنل آف اپلائیڈ پالیمر سائنس میں شائع ہونے والا ایک تحقیقی مقالہ سال 2018 اور سال 2019 میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والا ریسرچ پیپر بھی تھا۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے درجنوں تحقیقی مقالہ جات، مطالعوں اور سروے کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ معدے کی تیزابیت اور غذا کی نالی میں ہاضماتی رس کی واپسی کے تکلیف دہ مرض یعنی گیسٹرو ایسوفیگس ریفلکس ڈیزیز یا گورڈ کے علاج میں بعض اقسام کے پولی سیکرائیڈز مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

اسرائیل دنیا کی ہمدردیاں کھو چکا ہے: امریکی عہدیدار

واشنگٹن:امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مارک وارنر نے کہا کہ یہ …