بدھ , 24 اپریل 2024

بھارت نواز کشمیری رہنماؤں سے مودی کی ملاقات متوقع، آرٹیکل 370 پر حمایت کی کوشش کا امکان

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز کشمیری رہنماؤں سے ملاقات میں زیر تسلط خطے کے اندر سیاسی عمل کو دوبارہ فعال کرنے پر بات کریں، ان کی ملاقات کو مقبوضہ کشمیر سے متعلق سخت گیر پالیسی کے تناظر میں ایک بڑی پسپاہی تصور کیا جارہا ہے۔

بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے نئی دہلی اور مقبوضہ کشمیر کے اہم سیاسی رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہوگی جسے لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف گہری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

اجلاس میں مدعو ہونے والوں میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبد اللہ اور عمر عبداللہ (نیشنل کانفرنس)، غلام نبی آزاد (کانگریس) اور محبوبہ مفتی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) شامل جنہیں بھارتی حکام نے 5 اگست کے بعد حراست میں لیا تھا۔

اس اجلاس میں شامل ہونے والے دیگر افراد میں تارا چند، مظفر حسین بیگ، نرمل سنگھ، کوویندر گپتا، یوسف تاریگامی، الطاف بخاری، سجاد لون، جی.اے. میر، رویڈنر رائنا اور بھیم سنگھ بھی شامل ہیں۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) اس ملاقات کا حصہ نہیں ہیں۔

اسلام آباد کی جانب سے اس ملاقات کو 5 اگست کے اقدام کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے جسے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیرمعمولی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور کشمیری رہنماؤں کے مابین ملاقات کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوگا اور وہ مقبوضہ کشمیر کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے۔

لیکن ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے ریاستی انتخابات، انتخابی حلقوں کی حد بندی اور ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعہ خطے کا ریاست تسلیم کرنے سے متعلق ہیں۔

بی جے پی کی حکومت حلقہ بندیوں کے ذریعے آئندہ ریاستی انتخاب میں کم سے کم 7 ہندو اکثریتی حلقوں میں کامیابی کے لیے کوشش کر رہی ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خطے کو ریاست کا درجہ حصل ہے اور بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ علاقہ فی الحال ایک یونین ٹیریٹری ہے جہاں قانون ساز اسمبلی ہو گی۔

پاکستان نے بیک ڈور رابطوں کے ذریعے بھارت کو دوطرفہ تعلقات میں آگے بڑھنے کے لیے 5 اگست کے اقدام کو واپس لینے پر زوردیا ہے لہذا یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اگر محض ریاست کی بحالی سے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام مطمئن ہوں گے، بظاہر اس کا جواب نفی میں ہے۔

اگرچہ اجلاس کے بارے میں اسلام آباد کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا لیکن انٹرویوز کے دوران یہ بات سامنے آتی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے بغیر پاکستان کو کوئی دوسرا راستہ قبول نہیں ہوگا۔

لہذا اسلام آباد کی خواہش ہے کہ دہلی 5 اگست کے اپنے اقدامات پر نظر ثانی کرے اور آرٹیکل 370 اور 35-A کو بحال کرے۔

تاہم یہ دیکھنا قدرے دلچسپ ہوگا کہ بھارت نواز کشمیری سیاستدان، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس ممکنہ اقدام کا کیا جواب دیں گے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی کے علاوہ دیگر تمام کشمیری رہنماؤں نے بھارتی حکام سے انفرادی ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری کے معاملے میں لچک کا اظہار کیا تھا۔

تاہم منگل کے روز ‘پیپلز الائنس فار گپکر ڈیکلیریشن’ کے اجلاس میں تمام جماعتوں نے بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے مشترکہ مؤقف برقرار رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

ماضی میں ان جماعتوں نے ریاست کی شناخت، خودمختاری اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے اجتماعی طور پر جدوجہد کرنے کا عزم کیا تھا۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ رہنما ڈیکلیریشن اعلامیے میں کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں یا اپنے انفرادی سیاسی تحفظات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور خود مختاری کے بغیر ریاست کو قبول کرتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

اسرائیل دنیا کی ہمدردیاں کھو چکا ہے: امریکی عہدیدار

واشنگٹن:امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مارک وارنر نے کہا کہ یہ …