ہفتہ , 20 اپریل 2024

ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے کی امید چھوڑ کر ترک فوج کا بھی کابل سے انخلا

انقرہ: ترکی نے کہا ہے کہ اس نے افغانستان سے اپنے فوجیوں کو نکالنے کا عمل شروع کردیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کا منصوبہ ترک کردیا گیا ہے۔

ترک عہدیداروں نے بتایا کہ طالبان نے ترکی سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعدکابل ایئرپورٹ کے انتظامات چلانے میں تکنیکی مدد کرنے کاکہا تھا لیکن ساتھ ہی ترکی پر اپنی فوجیں بھی واپس بلانے کے لیے اصرار کیا تھا۔

اس سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کئی ماہ سے یہ کہہ رہی تھی کہ اگر درخواست کی گئی تو ایئرپورٹ پر موجودگی برقرار رکھ سکتی ہے۔

چنانچہ جب طالبان نے کنٹرول سنبھالا اس کے بعد بھی ترکی نے ایئرپورٹ پر تکنیکی اور سیکیورٹی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔

منگل کے روز امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد انقرہ کابل میں قدم جمانے کی امید کررہا تھا لیکن طالبان کے تیزی سے کابل پر قبضے کے بعد وہ منصوبے انتشار کا شکار ہوگئے اور امریکاکے ساتھ اس کے ہنگامہ خیز تعلقات میں فائدہ اٹھانے کا ایک ایم موقع ختم ہوگیا۔

ایک بیان میں ترک وزارت دفاع نے کہا کہ ’ترک مسلح افواج اس فخر کے ساتھ اپنی سرزمین پر واپس آرہی ہیں کہ جس ذمہ داری کے لیے ان پر بھروسہ کیا گیا وہ انہوں نے کامیابی سے نبھائی‘۔

ترکی کے 500 سے زائد غیر جنگی فوجی افغانستان میں تعینات تھے جو کہ جنگ زدہ ملک میں نیٹو کے اب ترک کردہ مشن کا حصہ تھے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ انقرہ طالبان رہنماؤں کے ساتھ رابطے کے راست کلھلے رکھ کر اب بھی افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کا استحکام اہم ہے‘۔

ترک وزارت دفاع نے بھی کابل میں سیکیورٹی میں کردار ادا کرنے کا آپشن رکھ کر کہا کہ ’ ترکی اس مقصد کے لیے افغانستان میں تمام فریقوں کے ساتھ قریبی بات چیت جاری رکھے گا‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ترکی اس وقت تک افغان عوام کے ساتھ رہے گا جب تک وہ چاہیں گے ساتھ ہی ذکر کیا گیا کہ اس کے فوجی گزشتہ 6 برسوں سے ایئرپورٹ پر تعینات تھے۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے مشروط درخواست نے انقرہ کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا تھا کہ کیا یہ خطرناک ذمہ داری قبول کی جائے یا نہیں۔

ایک سینئر ترک عہدیدار نے کہا کہ ’طالبان نے کابل ایئرپورٹ چلانے کے لیے تکینیکی معاونت فراہم کرنےکی درخواست کی تھی تاہم طالبان کی جانب سے تمام ترک فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کسی ممکنہ مشن کو پیچیدہ بنادے گا۔

شناخت پوشیدہ رھنے کی درخواست پر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ ترک مسلح افواج کی موجودگی کے بغیر ورکرز کی سیکیورٹی یقینی بنانا ایک خطرناک کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر طالبان کے ساتھ بات چیت جاری تھی کہ اس دوران فوجوں کی واپسی کی تیاریاں مکمل ہوگئیں۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ اگر فوجی سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے موجود نہ ہوں تو کیا ترکی تکنیکی معاونت فراہم کرنے پر رضامند ہوگا۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …