ہفتہ , 20 اپریل 2024

کابل، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔!

تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان کی خفیہ ایجنسی ’’آئی ایس آئی‘‘ کے چیف چند روز قبل اچانک کابل پہنچ گئے۔ جہاں کے سرینا ہوٹل میں روایتی کابلی قہوے کے کپ کیساتھ ان کی تصویر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہوئی۔ یہ تصویر سب سے پہلے چینل فور کی ایڈیٹر لنڈسے ہلسم نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ سے شیئر کی، حالانکہ طالبان، پاکستانی سفارت خانے اور ہوٹل کے عملے نے جنرل فیض حمید کی آمد کی خبر چلانے کی اجازت دے دی تھی، تصویر وائرل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، مگر یہ تصویر وائرل ہوگئی۔ اس کے بعد بھارتی میڈیا نے اس تصویر کو خوب آگے بڑھایا اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ پوچھا جائے، آئی ایس آئی چیف کابل میں چائے پینے کیوں گئے؟ بھئی انہیں طالبان کی شوریٰ عالی نے دعوت دی تھی اور یہ بھی بتائے دیتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ کسی بھی ملک کے پہلے افسر کا دورہ ہے۔

جنرل فیض حمید کی آمد سے قبل ہی پاکستانی سفارتخانے کی گاڑیوں کی نقل و حرکت دیکھ کر سرینا ہوٹل میں مقیم غیر ملکی صحافیوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی بڑی شخصیت آرہی ہے، تاہم ہوٹل کے عملے سے معلومات ملنے پر مغربی میڈیا کے نمائندگان زیادہ فعال ہوگئے اور انہوں نے لابی میں جمگھٹا لگا لیا۔ جنرل فیض کے پہنچنے پر صحافیوں سے کچھ غیر رسمی سی گفتگو بھی ہوئی۔ جس میں صحافیوں کے سوالات پر جنرل فیض حمید نے بتایا کہ وہ پاکستانی سفیر سے ملنے آئے ہیں۔ مگر جلد ہی صورتحال واضح ہوگئی اور پتہ چلا کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت نے جنرل فیض حمید کو دعوت دی تھی۔ طالبان کی قیادت کیساتھ جنرل فیض کی ملاقات ہفتہ کے روز اڑھائی بجے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل میں ہوئی۔ انٹرکانٹینینل نیم سرکاری ہوٹل ہے۔ اس ہوٹل میں طالبان رہنماؤں نے ہی جنرل فیض حمید کا استقبال کیا۔

ملاقات میں پاک افغان سکیورٹی، اقتصادی امور اور پاک افغان بارڈر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں طالبان حکومت کے انٹیلی جنس چیف ملا نجیب بھی موجود تھے۔ ملاقات میں طالبان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے اور ہمارا قابل بھروسہ دوست ملک ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ملک میں امن و امان قائم ہو، جس ک لئے ہمیں پاکستان کے قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان نے ملاقات میں اس اُمید کا اظہار بھی کیا کہ مستقبل میں دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ اس موقع پر افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد پاک افغان تعلقات سے متعلق معاملات پر گفتگو کی گئی۔ جنرل فیض حمید نے کہا کہ پاکستان پہلے بھی افغانستان کی بہتری کے لئے کام کرتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی افغان امن کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ جنرل فیض حمید نے وہاں تاریخی جملہ کہا کہ ’’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، سب ٹھیک ہوگا۔‘‘

دوسری طرف قطر میں طالبان رہنماؤں کے وفد نے پاکستانی سفارتخانے کا دورہ کیا، جس وقت پاکستانی سفیر احسن کمال نے ان کا پُرتپاک خیرمقدم کیا اور ملاقات کی، اس دوران طالبان رہنماؤں نے پاکستان کے مثبت کردار کو سراہتے ہوئے مستقبل میں قریبی تعاون کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کی تعمیر نو، طور خم اور سپن بولدک میں لوگوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانے سے متعلق مسائل پر بھی بات چیت کی۔ ہفتہ کو طالبان رہنماؤں کے وفد نے مولانا شیر محمد عباس ستانکزئی کی قیادت میں دوحہ میں پاکستانی سفارتخانے کا دورہ کیا۔ پاکستانی سفیر احسن کمال نے افغان وفد کا خیر مقدم کیا۔ اس موقع پر افغان طالبان قیادت نے افغانستان کے موجودہ حالات میں پاکستان کے مثبت کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف اسلام کا رشتہ ہے بلکہ وہ ایک بہترین پڑوسی ملک بھی ہے، جس نے افغان مہاجرین کی لمبے عرصہ تک میزبانی کی۔

انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ مستقبل میں بھی یہ تعاون مزید مستحکم ہوگا۔ دوحہ آفس میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اس ملاقات کے حوالے سے ٹوئیٹ کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں فریقوں نے موجودہ افغان صورتحال، انسانی امداد، باہمی دلچسپی اور احترام پر مبنی دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ آئی ایس آئی چیف کے دورہ کابل اور دوحہ میں طالبان وفد کی پاکستانی سفارتخانے آمد ثابت کرتی ہے کہ افغان طالبان اپنی پائیدار حکومت کے قیام کے لئے پاکستان کے تعاون کے خواہشمند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی چیف نے طالبان کو یہ یقین دہانی کروائی دی ہے کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، سب ٹھیک ہوگا۔ یہ وہ یقین دہانی ہے، جو اشارہ دے رہی ہے کہ کچھ غلط ہونے کی منصوبہ بندی کا پتہ چلا ہے، لیکن آئی ایس آئی اس معاملے کو سنبھال لے گی۔

طالبان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کے تعاون سے ہی کابل میں ایک مستحکم حکومت قائم ہوگی، پاکستان بھی بارہا اس بات کا اشارہ دے چکا ہے کہ وہ کابل میں ایک مستحکم حکومت کا خواہاں ہے، جس کے لئے پاکستان ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔ کابل میں آئی ایس آئی چیف کی ملاقات میں طالبان قیادت کیساتھ ساتھ قطر کے حکام بھی موجود تھے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان میں اقتدار کے عمل کو استحکام دینے کیلئے قطر بھی طالبان کے شانہ بشانہ ہے۔ آئی ایس آئی چیف کے دورہ کابل کے بعد یہ بات تو طے ہوگئی ہے کہ اب افغانستان میں بہتری آئے گی۔ جہاں تک امریکی حکام افغانستان میں خانہ جنگی کے اشارے دے رہے ہیں تو یہ محض امریکیوں کا اندازہ ہی ہے اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ امریکیوں کے اندازے ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوتے ہیں۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …