جمعہ , 19 اپریل 2024

فتنۂ شام کے بعد مغرب کی ذلت و رسوائی

(ترجمہ: فرحت حسین مہدوی)
مبصرین کہتے ہیں کہ زيادہ تر عرب حکمران صدر بشار الاسد کے برسر اقتدار رہنے کے آگے سر تسلیم خم کرچکے ہیں اور ان تمام دہشتگرد مسلح ٹولوں کی تاریخ اختتام گزر چکی ہے جنہوں نے سات سال تک امریکہ، پورے یورپ، یہودی ریاست، ترکی، اور خلیج فارس کی ساحلی عرب ریاستوں کی حمایت سے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کی غرض سے شام کی شاد و آباد سرزمین کو ویرانی سے دوچار کیا اور لاکھوں انسانوں کا خون کیا۔

حال ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کے اعلان کا مقصد اس حقیقت پر زور دینا ہے کہ صدر بشار الاسد دشمنوں کو شکست دے چکے ہیں چنانچہ عرب ممالک کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم اور یوں اپنی ناکامی پر اعتراف کرتے ہوئے اپنے سفیروں کو دوبارہ دمشق روانہ کریں، جنہوں نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی امید لے کر اپنے سفیر کو واپس بلایا تھا۔

شام میں تبدیلیوں کا عمل ماضی کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے جاری ہے؛ امریکی صدر کے اعلان فرار، سوڈان کے صدر کے دورہ شام، دمشق میں امارات کے سفارتخانے کی بحالی اور شام کے وزیر خارجہ سے بحرینی وزیر خارجہ کی ملاقات، نیز عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کے بارے میں ہونے والی چہ میگوئیوں کے بعد اب یورپیوں نے بھی اپنی شکست قبول کرلی ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کے پاس شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا ہے۔

دمشق اور منامہ میں سابق برطانوی سفیر پیٹر فورڈ (peter ford) نے اعلان کیا ہے کہ “شام کے ساتھ یورپی ممالک کے تعلقات کی بحالی کے لئے صرف وقت کا عنصر پیش نظر ہے، اور عین ممکن ہے کہ برطانیہ اور فرانس کے سفراء اس سال (سنہ ۲۰۱۹ع‍) میں دمشق واپس چلے جائیں۔ شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کسی بھی پیشگی شرط کے بغیر عمل میں لائی جارہی ہے کیونکہ موجودہ صورت حال ہمیں کوئی بھی شرط متعین کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے”۔

انھوں نے محاذ مزاحمت کے خلاف بڑی سازش کی ناکامی کا اقرار کرتے ہوئے کہا: “عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کا وقت آن پہنچا ہے اور امریکہ کے پاس دمشق کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی بحالی کے انسداد کے لئے کافی شافی طاقت نہیں ہے”۔

فورڈ نے المیادین خبررساں چینل کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شام کے ساتھ عربوں کی مزید دشمنی کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور عرب لیگ بھی اس حقیقت کا ادراک کرچکا ہے؛ قطر بھی بہت جلد شام کے سلسلے میں اپنا موقف بدل دے گا کیونکہ قطر مالی امداد کے بل بوتے پر، نیز مسلح دہشت گردوں کی حمایت کرکے شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کی اپنی کوششوں میں ناکام ہوچکا ہے”۔

اس برطانوی سفارتکار کا موقف ایسے حال میں سامنے آرہا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے مورخہ ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ع‍ کو ایک تقریب کا انعقاد کرکے اپنے سفارتخانے کو چھ سالہ بندش کے بعد دوبارہ کھول دیا۔ امارات پر مسلط نہیانی قبیلے کی حکومت نے بحران شام اور اس ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے آغاز سے بشار مخالف عناصر کو مسلح کرنے اور اس ملک کی سلامتی کے خلاف برسپر پیکار دہشت گرد ٹولوں کی بھرپور مدد و حمایت کی تھی۔

اسی امارات نے اسی ہفتے شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا اور اس ریاست کے وزیر خارجہ نے کہا کہ “ہمارے اس اقدام کا مقصد یہ بتانا تھا کہ متحدہ عرب امارات دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کا خواہاں ہے”۔

شام کے نائب وزیر خارجہ أيمن سوسان نے المیادین کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: “بعض عرب اور یورپی ممالک نے اپنے سفارتخانوں کی حالت دیکھنے کے لئے مختلف وفود دمشق روانہ کئے ہیں”۔

مورخہ ۱۸ دسمبر ۲۰۱۸ع‍ کو شام کے صدر ڈاکٹر بشار الاسد اور سوڈان کے صدر عمر البشیر نے دمشق میں ایک نشست کے دوران دو طرفہ تعلقات اور شام سمیت علاقے کے موجودہ حالات پر بات چیت کی۔ یہ سنہ ۲۰۱۱ع‍ کے بعد کسی عرب ملک کے سربراہ کا پہلا دورہ شام تھا۔ عمر البشیر نے شام اور اس کی سلامتی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ خارطوم شام کی سلامتی اور ملکی سالمیت کی حمایت کے لئے تیار ہے۔

قبل ازیں عمر البشیر نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ “شام کی موجودہ صورت حال کا اصل سبب امریکی مداخلت ہے۔ شام میں امن کا قیام اور جنگ کا اختتام بشارالاسد کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں ہے”۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی مجلس عمومی کی نشست کے موقع پر بحرین کے وزیر خارجہ کا شامی ہم منصب سے آمنا سامنا ہوا تو انھوں نے مختصر سی بات چیت بھی کی۔ بعدازاں بحرینی وزیر خارجہ نے دعوی کیا کہ یہ ملاقات پیشگی منصوبے کے بغیر انجام پائی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاقے کے بعض ممالک خصوصا بحرین سعودی عرب کی اجازت کے بغیر پانی بھی نہیں پیتے؛ لہذا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ علاقے میں قائم ایران مخالف محاذ شام کے خلاف سات سالہ جنگ میں شکست کے بعد، اب اس ملک کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بےشک اس منصوبے کی باگ ڈور ریاض اور ابو ظہبی کے ہاتھ میں ہے اور یہ کوششیں ان دو ریاستوں کی خواہش پر ہورہی ہیں۔

ماہرین نے اس سے قبل شام دشمن ممالک کے ان اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ “عمر البشیر سوڈان کی اعلی ترین شخصیت کے طور پر نہیں بلکہ بنی سعود کے ایلچی کے طور پر دمشق کا دورہ کیا ہے”؛ اور یہ خود اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ عرب ممالک بھی یورپی ممالک کی طرح اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ وہ سب مل کر محاذ مزاحمت سے شکست کھا چکے ہیں۔

اس سے پہلے بھی rajanews[.]com نے ایک رپورٹ کے ضمن میں خبر دی تھی کہ شام سے امریکیوں کا انخلاء، عمر البشیر کے دورہ شام، شام اور اردن کے مابین سرحد آمد و رفت کے لئے کھولنے، دمشق میں سفارتخانہ کھولنے کی اماراتی کوششوں اور شام کو عرب لیگ میں دوبارہ بلانے کے لئے کچھ عرب ممالک کی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے مہینوں میں تمام عرب ممالک شام کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کریں گے۔

دریں اثناء رأی الیوم کے تجزیہ نگار اور عالم عرب کے نامور صحافی نے بھی اس سلسلے میں لکھا: “توقع کی جاتی ہے کہ دمشق کے دروازوں کے پیچھے سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئے ایک لمبی قطار بندھ جائے، اور سب کے سب شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر اصرار کریں، تا کہ شام ایک بار پھر سازش سے قبل کے حالات کی طرف پلٹ سکے؛ البتہ شام اس بار پہلے سے زیادہ طاقتور ملک ہوگا”۔

عطوان کا کہنا تھا کہ “توقع ہے کہ دمشق آمد کی اس لہر میں نئے عیسوی سال کے آغاز سے شدت آئے، اور زیادہ تر عرب کے ممالک کے صدور کے طیارے یکے بعد دیگرے دمشق کے ہوائی اڈے پر اتریں، اور عرب سربراہ ان سے برآمد ہوں! اور صدر بشار الاسد کے ساتھ دوستی کی خواہش ظاہر کریں۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر نے نہایت دوستانہ انداز سے صدر بشار الاسد کو گلے لگایا، اور وہ اس حوالے سے واحد صدر نہیں ہونگے اور ہم بہت سے عرب صدور اور دیگر سربراہوں کو دمشق کے صدارتی محل میں دیکھ لیں گے”۔

بہت سے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ
مبصرین کہتے ہیں کہ زيادہ تر عرب حکمران صدر بشار الاسد کے برسر اقتدار رہنے کے آگے سر تسلیم خم کرچکے ہیں اور ان تمام دہشتگرد مسلح ٹولوں کی تاریخ اختتام گذر چکی ہے جنہوں نے سات سال تک امریکہ، پورے یورپ، یہودی ریاست، ترکی، اور خلیج فارس کی ساحلی عرب ریاستوں کی حمایت سے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے نیت سے شام کی شاد و آباد سرزمین کو ویرانی سے دوچار کیا اور لاکھوں انسانوں کا خون کیا۔ حال ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کے اعلان کا مقصد اس حقیقت پر زور دینا ہے کہ صدر بشار الاسد دشمنوں کو شکست دے چکے ہیں چنانچہ عرب ممالک کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم اور یوں اپنی ناکامی پر اعتراف کرتے ہوئے اپنے سفیروں کو دوبارہ دمشق روانہ کریں، جنہیوں نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی امید لے کر اپنے سفیر کو واپس بلایا تھا۔بشکریہ ابنا نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …