چین نے اعلان کیا ہے کہ ان کی خلائی ایجنسی کی جانب سے بھیجا گیا روبوٹک خلائی جہاز ‘چینگ فور’ چاند کے ‘تاریک حصے’ میں کامیابی سے اترنے والا پہلا جہاز بن گیا ہے۔عالمی معیاری وقت کے مطابق رات ڈھائی بجے کے قریب چین کا چینگ فور طیارہ چاند کے قطب جنوبی-ائیٹکن بیسن پر اترنے میں کامیاب ہو گیا۔
چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے اس لینڈنگ کو ‘خلابازی کی تاریخ کا اہم قدم’ قرار دیا ہے۔چینی حکام نے اس روبوٹک طیارے سے بھیجے جانے والی چاند کی تصویر بھی ٹوئٹر پر جاری کی ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں چاند پر بھیجے جانے والے مشن چاند کے اس حصے میں گئے تھے جو زمین کے رخ پر ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کوئی جہاز چاند کی عقبی حصے میں گیا ہو۔یہ خلائی گاڑیاں مخلتف قسم کے آلات سے لیس ہیں جو علاقے کی ارضیاتی خصوصیات جانچنے کے علاوہ حیاتیاتی تجربہ بھی کریں گے۔
چینگ 4 وان کریمر نامی گڑھے کا مطالعہ کرے گی جو ایک بڑے گڑھے میں واقع ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ماضی میں کسی زبردست ٹکراؤ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔
یونیورسٹی کالج لندن میں فزکس کے پروفیسر اینڈریو کوٹس نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ جگہ 2500 کلومیٹر چوڑی اور 13 کلومیٹر گہری ہے اور اسے نظام شمسی میں سب سے بڑے گڑھوں میں شمار کیا جاتا ہے جو کسی ٹکراؤ کے نتیجے میں وجود میں آئے تھے۔ چاند پر یہ سب سے بڑا، گہرا اور پرانا گڑھا ہے۔
چینگ 4 کے مشن کا ایک اور مقصد چاند کی تاریخ کے اس بڑے ٹکراؤ کے نتیجے میں سامنے آنے والی چٹانوں کا مطالعہ کرنا ہے۔ مشن کا تیسرا مقصد دوسری طرف ٹوٹی ہوئی چٹانوں اور مٹی کا مطالعہ کرنا ہے جس سے ہمیں چاند کے بننے کے عمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
مشن سے ہم مزید کیا سیکھ سکتے ہیں؟
چینگ 4 کے لینڈر پر دو کمرے لگے ہیں جن میں ایک برقناطیسی شعاؤں کے لیے جرمنی کا بنا ایل این ڈی ہے اور دوسرا ایک ‘سپیکٹرومیٹر’ ہے جو خلا میں کم فریکوینسی کے ریڈایی مشاہدوں کے لیے ہے۔
لینڈر پر تین کلوگرام کا ایک کنٹینر ہے جس میں حیاتیاتی تجربات کے لیے آلو اور کچھ دیگر پودوں کے بیج اور ریشم کے کیڑوں کے انڈے ہیں۔ یہ تجربہ چین کی 28 یونیورسٹیوں نے مل کر تیار کیا ہے۔
دیگر آلات میں ایک ‘پیونورامک’ کیمرہ، چاند کی سطح کے نیچے مشاہدے کے لیے راڈار، دھاتوں کی نشاندہی کے لیے سپیکٹرومیٹر شامل ہیں اور ایک تجربہ گاہ جس کا مقصد شمسی ہواؤں کے چاند کی سطح سے ٹکرانے کے عمل کا مطالعہ کرنا ہے۔
چینگ 4 چین کے چاند پر تحقیق کے بڑے پروگرام کا حصہ ہے۔ اس کے بعد چینگ 5 اور چینگ 6 مشن چاند سے پتھروں اور مٹی کے نمونے لے کر زمین پر واپس آئیں گے۔
سائنسدان چاند پر بھیجی گئی گاڑی سے کیسے رابطہ رکھیں گے؟
چین کی یونیورسٹی آف جیو سائنس کے ڈاکٹر لانگ ژاؤ نے ستمبر میں ایک میگزین میں لکھا تھا کہ چاند کا یہ حصہ جہاں چین کی خلائی گاڑی اتری ہے زمین سے اوجھل ہے اور اس سے براہ راست ریڈیو لنک ممکن نہیں۔ اس کا رابطہ زمین سے ایک سیٹلائیٹ کے ذریعے ہو گا جسے چین نے گزشتہ سال مئی میں لانچ کیا تھا۔یہ خلائی گاڑی چاند سے 65000 کلومیٹر کے فاصلے پر ایسے مقام پر ہے جہاں وہ چین، ارجنٹینا اور دیگر ممالک سے دیکھی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ایک غیرمعمولی صورتحال کی وجہ سے جسے ‘ٹائیڈل لاکنگ’ کہا جاتا ہے ہم زمین سے چاند کا صرف ایک رخ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ چاند اپنے محور پر گھومنے کے لیے اتنا ہی وقت لیتا ہے جتنی دیر میں وہ زمین کے مدار کے گرد چکر لگاتا ہے۔
چاند کی اس سطح کو عام طور پر ‘تاریک پہلو’ کہا جاتا ہے تاہم یہاں ‘تاریک’ کا مطلب ‘ان دیکھا’ ہے اور ایسا نہیں کہ یہاں روشنی نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ چاند کے دونوں جانب دن اور رات کا وقت یکساں ہوتا ہے۔
لینڈنگ کا چیلنج
ابھی تک چین نے امریکی اور روسی خلائی مشنز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ مشن کسی بھی خلائی ادارے کی جانب سے پہلا قدم ہے۔چاند کی دوسری جانب کی ناہموار سطح خلائی گاڑیوں کی لینڈنگ کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔
چینی سائنسدانوں کے مطابق جنوبی قطب کے ایٹکین بیسن میں وون کرمان کا حصہ لینڈنگ کے لیے اس لیے منتخب کیا گیا کہ یہ دیگر علاقوں کے مقابلے میں خاصا ہموار ہے۔بشکریہ بی بی سی