بدھ , 24 اپریل 2024

وزیراعظم کے دورہ ترکی کے ثمرات و ممکنہ اثرات

(تحریر: ثاقب اکبر)

پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم عمران خان نے اپنے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ (تین و چار جنوری 2019ء) دو روزہ دورہ ترکی مکمل کر لیا ہے۔ اس دورے کے کچھ ثمرات تو دورے کے دوران اور مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں دکھائی دے رہے ہیں، تاہم اس کے دوررس اثرات کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے دورے کے دوران ترک صدر رجب طیب اردگان اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مابین ہونے والی ملاقات، میڈیا سے کی جانے والی گفتگو اور دیگر امور کا دقت نظر سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ دونوں راہنماؤں نے ایک دوسرے کے لیے گہری محبت کا اظہار کیا، دونوں نے ایک دوسرے کے ملک کے لیے اپنی محبت اور تاریخی تعلقات پر زور دیا، دونوں نے عالمی اور دو طرفہ سطح پر روابط کو قائم رکھنے اور انھیں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس دورے میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی خسرو بختیار اور مشیر کامرس و صنعت و تجارت عبد الرزاق داود نیز اورسیز پاکستانیوں کے لیے وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی زلفی بخاری بھی موجود تھے، اس سے اس دورے کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

دورے کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملک اقوام متحدہ اور او آئی سی میں ایک دوسرے کی حمایت جاری رکھیں گے۔ پاکستان نے نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے لیے ترکی کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ عالمی مسائل میں سے مشترکہ اعلامیہ میں القدس کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق ترکی اور پاکستان القدس کی قانونی حیثیت اور تاریخی کردار کو تبدیل کرنے کی کوششیں مسترد کرتے ہیں۔ فلسطین کے عوام کی آزادی اور خودمختاری کے لیے حمایت جاری رکھنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ دونوں راہنماؤں کی مشترکہ گفتگو کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر کا ہے، بھارت مسلسل کشمیریوں کی جمہوری جدوجہد کو طاقت سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے اور مذاکرات سے بھی انکاری ہے۔ خطے میں استحکام تبھی آسکتا ہے، جب بھارت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آمادہ اور دوطرفہ امور پر بات کرنے کے لیے تیار ہو۔ اسی پس منظر میں مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ضروری ہے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ ترکی کے نزدیک گولن تحریک کے خلاف پاکستان کی طرف سے ترکی کی حمایت بہت اہمیت رکھتی ہے، یہ بات اس دورے کے دوران مختلف مواقع پر ظاہر ہوئی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے موقع پر اس کا ایک سے زیادہ مرتبہ ذکر کیا اور انھوں نے پاکستان کی طرف سے گولن تحریک کو ایک دہشت گرد تحریک قرار دینے پر خاص طور پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ مشترکہ اعلامیے میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق فتح اللہ گولن کی دہشت گرد تنظیم کے خلاف موثر کارروائی پر اتفاق کیا گیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ترکی کی زیادہ دلچسپی اس بات میں ہے کہ پاکستان امریکہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے فتح اللہ گولن کی تنظیم اور تحریک کے خلاف کیا کچھ کر رہا ہے۔ پاکستان پہلے ہی گولن تحریک کے تحت چلنے والے سکول ترکی کی معارف فاؤنڈیشن کے سپرد کر چکا ہے۔ معارف فاؤنڈیشن 2016ء کے ناکام انقلاب کے بعد ترک حکومت نے قائم کی تھی، جس کا مقصد ان سکولوں کا انتظام سنبھالنا تھا، جو ملک کے اندر اور باہر گولن نیٹورک چلا رہا تھا۔ ترکی کا الزام ہے کہ انقلاب کے پیچھے گولن نیٹ ورک کا ہاتھ تھا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک ترک درخواست کو تسلیم کرتے ہوئے گولن نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا۔ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورے کے موقع پر پاکستان کے اس اقدام پر ترک صدر سراپا سپاس نظر آئے۔

افغانستان کا مسئلہ بھی اس دورے میں چھایا رہا، ویسے تو پاکستان اور ترکی کے مابین گذشتہ تمام عرصے میں اچھے روابط رہے ہیں، تاہم بعض ادوار سرگرم روابط اور بعض ادوار نسبتاً سرد روابط کے بھی آئے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے خاص طور پر وہ دور دونوں ملکوں کے مابین اختلاف رائے کا تھا، جب پاکستان طالبان کی پشت پر کھڑا تھا اور ترکی شمالی اتحاد کی حمایت کر رہا تھا۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام افغان عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ افغان امن کے لیے علاقائی اور عالمی برادری کی حمایت ضروری ہے۔ دونوں راہنماؤں کی میڈیا ٹاک کے موقع پر بھی افغانستان کا ذکر آیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں داعش منظم ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ہماری سرحد اور قبائلی علاقوں کو اس سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ انھوں نے ترکی، پاکستان اور ایران کی مستقبل قریب میں استنبول میں ہونے والی کانفرنس سے اچھی توقعات کا اظہار کیا اور کہا کہ تینوں ملک مل کر افغانستان کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے عوام تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے مصائب جھیل رہے ہیں۔ ان کی مشکلات حل کرنے کے لیے پاکستان پہلے ہی امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات میں تعاون کر رہا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ شام کے مسئلہ پر بھی دونوں راہنماؤں کے مابین ون آن ون طویل ملاقات میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ اس کا اظہار مشترکہ پریس کانفرنس سے وزیراعظم پاکستان کے خطاب کے دوران میں ہوا، جب انھوں نے کہا کہ شام کے لوگوں نے بہت مصائب جھیلے ہیں، وہاں امن قائم کرنے کے لیے ہم ترکی کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ داعش کو شکست دینے کے لیے شام میں ترکی کی کوششوں پر ہم تعاون کریں گے۔ دونوں ملکوں کے مابین سیاسی، عسکری، تجارتی، ثقافتی اور سیاحتی شعبوں میں وسیع تر تعاون پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان کے وزیراعظم نے کہا کہ ہم دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بلندیوں پر لے جانا چاہتے ہیں، ایسی بلندیوں تک جس پر کبھی پہلے کبھی نہیں پہنچے۔ انھوں نے ہاوسنگ، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں ترکی کی ترقی کو اپنے لیے نمونہ قرار دیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم پاکستان کو مدینہ کی ریاست کے ماڈل پر ترقی دینا چاہتے ہیں۔ یہ ریاست رحم اور انصاف کی بنیاد پر قائم تھی۔ انھوں نے کہا کہ ترکی نے پہلے ہی مختلف شعبوں میں غریب عوام کی فلاح کے لیے جو منصوبے بنائے ہیں اور جو کام کیے ہیں، وہ اسی بنیاد پر ہیں۔ اسلامی فکر اور اقدار کے ساتھ دونوں ملکوں کی پرعزم وابستگی کا اظہار مشترکہ اعلامیے سے بھی ہوتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام کی حقیقی اقدار کو برقرار رکھنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ اعلامیے کے مطابق اسلامی تشخص کو مسخ کرنے کی کوششوں کے خلاف حکمت عملی بنائی جائے گی۔

مجموعی طور پر یوں لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کا ورلڈ ویو خاصی حد تک ایک ہے یا ایک ہوگیا ہے۔ استعماری طاقتوں کے حوالے سے اگرچہ بلاواسطہ کوئی بات نہیں کی گئی، لیکن دونوں راہنماؤں کی گفتگو اور اعلامیہ کے نکات سے اس سلسلے میں بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ بھی توقع کرنا چاہیئے کہ وزیراعظم پاکستان نے عالم اسلام کے مسائل کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی اپنی فکر ضرور پیش کی ہوگی، تاہم معاملات الجھے ہوئے اور خاصے پیچیدہ ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ شام کے بارے میں اپنے کردار کو جائز ثابت کرنے کے لیے ترک صدر اردگان نے داعش کے خلاف اپنے کردار کو شام میں مداخلت کے جواز کے طور پر پیش کیا ہوگا اور اسی وجہ سے وزیراعظم پاکستان نے پریس کانفرنس کے موقع پر مذکورہ بات کہی ہے، جبکہ خارجی اور زمینی حقائق خاصے مختلف ہیں اور اس وقت شام کے جنوب میں موجود مختصر سا داعشی گروہ ترک سرحد سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جو ترک دسترس سے بہت دور ہے۔

قبل ازیں بھی ترک افواج شامی کردوں کے خلاف کارروائی کے نام پر شام میں داخل ہوئی تھیں، نہ کہ داعش کے خلاف لڑنے کے لیے۔ یہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق کی اصل تصویر اپنے وزیراعظم کے سامنے پیش کرے۔ عالم اسلام کے دیگر مسائل بھی پیچ در پیچ ہیں، ایسا نہ ہو کہ آئندہ بھی ایک ملک کا نقطہ نظر سن کر وزیراعظم دیگر مسائل کے بارے بھی اظہار خیال کرنے لگیں، جن سے دیگر فریق کچھ اور مطلب نکالنے لگیں۔ ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے ہر مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو جاننا ضروری ہے۔ بہرحال مجموعی طور پر اس دورے کو پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں نہایت مفید اور دوررس قرار دیا جاسکتا ہے اور اگر وزیراعظم کی دعوت پر ترکی سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پاکستان کی معیشت کے لیے ضرور سود مند قرار دیا جائے گا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …